Saturday 20 October 2012

دھشت ہٹے، رہے دنیا امن سے۔۔




جمودِ سکوں پہ کیوں خاموش ہے۔۔؟
بڑھتے جنوں پہ کیوں خاموش ہے۔۔؟
بریدہ سروں پہ کیوں خاموش ہے۔۔؟
جلتے گھروں پہ کیوں خاموش ہے۔۔؟

بولو کہ انساں کی پہچان ہو
حیواں وشیطاں کی پہچان ہو
۔۔۔

جو انساں پہ کرتا ہے غارتگری
جو چھینے ہے ہم سے ہماری خوشی
جو قلموں کتابوں سے ڈرتا ہے جی
چلاتا ہے خنجر وہ گولی کو بھی

جنگ  کا  آغاز کرتا  ہوں  میں
بتا دو نہیں ان سے ڈرتا ہوں میں
۔۔۔
حسیں وادیوں پہ ہیں چھائے ہوئے
درندوں کا لشکر بنائے ہوئے
جنت کو دوذخ بنائے ہوئے
دیں کا تماشا بنائے ہوئے

یہ مسلم نہیں ، اس کی پہچاں نہیں ہے
خدا کی قسم وہ تو انساں نہیں ہے
۔۔۔

کرو بات ان سے ،جو کہتے ہیں لوگ
وہی ان سے ملتے ملاتے ہیں لوگ
پھول سے کانٹے ملاتے ہیں لوگ
وہی ان کے ساتھی یہ چاہتے ہیں لوگ

درندوں سے ملتا ملاتا ہے کون۔۔؟
درندوں کی بھاشا سمجھتا ہے کون۔۔؟
۔۔۔

پھولوں کی بستی بساتے ہیں پھر سے
چلو آوٗ ہنستے ہنساتے ہیں پھر سے
گیت امن کے سناتے ہیں پھر سے
اجڑے گھروں کو بساتے ہیں پھر سے

قائم رہے یہاں دنیا امن سے
دہشت ہٹے، رہے دنیا امن سے
۔۔۔

محصور
۔۔
اکتوبر ۲۰،۲۰۱۲


No comments:

Post a Comment