Thursday 21 February 2013

آخر اہلِ درد ہے کون؟


عجب ذہنی کشمکش اور تذبذب میں مبتلا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ کوئٹہ کی جلی کٹی سر بریدہ لاشوں پر نوحہ لکھوں یا صرف آنسو بہاتا رہوں؟ظلم کی اس داستان کو کیسے ضبطِ تحریر میں لاؤں۔۔۔؟ جہاں پر شیر خوار بچوں اور عورتوں سمیت سو سے زائدمحبانِ کربلاکو ایک ہی دن میں صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کہ ان کا عقیدہ وحشی درندوں کو ہضم نہیں ہوتا۔ وہ وحشی درندے جن کی مقصد اور نظریہ صرف انسانوں کا خون بہا کر جنت کا سستا حصول ہے۔



نظروں کے سامنے ہزاروں دکھی ماؤں،  تڑپتی بیٹیوں،سسکتی بہنوں، نوحہ کناں بھائیوں کے چہرے ہیں جو ٹھٹھرتی ٹھنڈی راتوں میں اپنے پیاروں کے لاشے لیے انصاف اورامن مانگ رہے ہیں۔ لب پر صرف ایک ہی سوال ہے۔۔۔انھیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟ " خدا کی زمین پر ، خدا کے نام پر، خدا کی مخلوق پر یہ ستم کیوں ڈھایا گیا ؟۔۔۔وہ کون ہے جو ان سے جینے کا حق چھیننا چاہتا ہےاور کیونکر چھیننا چاہتا ہے۔۔۔؟؟

کیا معصوم بچوں کا خون بہا کر جنت حاصل کرنا مقصود ہے؟ اگر جنت معصوموں کے خون سے مشروط ہے تو ایسی جنت سے کیا حاصل؟ جس کی قیمت ستم رسیدہ بچوں کا خون ہو۔۔۔اے درندو!! کیا تمہارے ضمیر نے کبھی نہ جھنجھوڑا تمہیں۔۔۔؟ مگر افسوس تمہارا ضمیر تو پیدا ہوتے ہی مار دیا گیا تھا۔



کس کس کا نوحہ لکھوں۔۔کس کس پر گریہ کروں۔۔۔؟

اُس معصوم شیعہ ہزارہ بچی "ثنا" کی آہوں کو کیسے قلم کی نوک سے تحریر کروں جو یہ کہتی رہی کہ میرے بابا
  بازار گئے تھے اور واپس نہیں آئے، وہ شہید ہو گئے ہیں۔۔۔ کسی نے پوچھا بیٹا: آپ کے بابا کدھر گئے ۔۔۔؟ تو کہنے لگی وہ امام حسینؑ کے پاس چلے گئے۔۔۔یہ جنت و جہنم سے ناواقف بچی اپنے بابا کی منزل کو کیسے پہچانتی ہے۔۔۔؟ صد آفریں ہے اس ماں پر جو اس بچی کو حسینیؑ رنگ میں ڈھال رہی  ہے۔




کیسے وہ دل دہلا دینے والا منظر لکھوں۔۔۔؟

جب ایک ماں گریہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میں نے اپنے یتیم بچوں کو اس لیے نہیں پالا تھا کہ کوئی درندہ آئے اور میرے جواں بیٹوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائے۔۔۔جو اپنے دو بیٹوں کو قربان کر چکی مگر آج بھی ثابت قدمی،غیرت، شجاعت اور استقامت کے ساتھ میدانِ کارزار  میں کھڑی ہے اور اپنی آیندہ نسل کو حسین ؑ کے نام پر قربان کرنے کو تیا ر ہے۔۔






ابھی ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کا گریہ آسمان سن رہا تھا کہ ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بارہ سالہ بیٹے مرتضٰی حیدر کی شہادت کی خبر نے دل کو مزید چھلنی کر دیا۔۔۔ اس انسان دوست مسیحا کے سر پر بارہ گولیاں  پیوست ہو گئیں، جس نے ساری زندگی انسانوں کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔۔ جس کا پچاسی سالہ بوڑھا باپ اپنے نا تواں کندھوں پر اپنے جواں سال بیٹے اور پوتے کے لاشے اٹھائے منوں مٹی تلے دباتے ہوئے بچشمِ تر یہ کہتا رہا۔۔۔۔۔" اے میرے مولا حسینؑ!!! میری یہ قربانی قبول کرنا۔۔۔" میرا دل و دماغ میراساتھ نہیں دے رہے اور نہ  میرے قلم میں وہ سکت کہ ایک ایک لاش کا نوحہ لکھتا رہوں۔۔۔دنیا کے ہر دردِ دل رکھنے والے انسان نے ان مظلوم لاشوں پر نوحہ پڑھا اور ماتم کیا۔۔






اب شکایت کروں تو کس سے کروں۔۔۔؟ کیسے کروں۔۔؟؟

  • ان حکمرانوں سے جن کی نا اہلی اور نالائقی نے ان سانحات کو جنم دیا۔۔۔؟
  • ان عسکری و خفیہ اداروں کے سربراہوں سے جنہوں نے لشکریوں کو اپنی نرسری میں پالا، تربیت دی اور انسانوں کو نوچنے اور کاٹنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔۔؟
  • ان سیاست دانوں سے جو اپنی سیاست اور ہوسِ حصولِ اقتدار کے لیے وحشیوں کو اپنا ہمنوا بناتے ہیں۔۔۔؟
  • ان سیاسی شعبدہ بازوں اور مسخروں سے جو ہماری لاشوں پر سیاست کرتے ہیں اور ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔۔؟
  • ان مذہبی ٹھیکیداروں سے جنہوں نے خدا کے نام کو خوف کی علامت بنا کر قتل عام کو عین عبادت قرار دیا۔۔۔؟
  • ان پیشہ ور زر خرید صحافیوں یعنی سیٹھیوں، عباسیوں،چشتیوں اور پراچوں سے جو اس خوں ریزی کو ایران اور سعودیہ کی سرد جنگ کا نتیجہ گردانتے ہیں اور ریاست کو اس سے بر ی الذمہ قرار دیتے ہیں۔۔۔؟
  • ان ا بلاغیاتی اداروں سے جنہوں نے ان سانحات سے اپنے چینلوں کی ریٹنگ بڑھانے اور پیسہ کمانے کے لیے حقائق سے چشم پوشی  اختیارکی۔۔؟
  • ان انسانی حقوق کے علمبرداروں سے جو ایک طرف ہمارے قتل پر آنسو بہاتے ہیں اور دوسری طرف قاتلوں کے ہمرائیوں سے امن کے لیے لیکچر دلواتے ہیں۔۔؟
  • ان ہمدردوں سے جو  شہیدوں کےجنازوں  کو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر مقید کرنا چاہتے ہیں اورعمداً یا سہواً  سازشوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔۔؟
  • یا اس مردہ قوم سے جسے یہ فکر ہے کہ کب دھرنے ختم ہوں اور رستے کھلیں تا کہ وہ اپنے بچوں کو مکڈونلڈ  پر برگر کھلانے لے جائیں۔۔؟

جس جس پر نظر ڈالتا ہوں ہر ایک ہمارے  قتل پر بالواسطہ یا بلا واسطہ  شریکِ جرم نظر آتا ہے۔





ہم پاکستانی مسلمان یا قوم بننا تو درکنار انسان بھی نہ بن سکے۔انسان بننے کے لیے دل سوزی چاہئے اور ہم نے تو اپنے سینے میں دل کی موجودگی کا احساس بھی کھو دیا کہ و ہ ہے بھی یا نہیں۔۔۔؟  کچھ دھڑکتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔؟ زندہ دل کہلانے والی قوم کی خاموشی اپنے ہی ہم وطنو کے خون کے جرم میں برابر کی شریک ہے۔ آج باہر کی قومیں آکر یہاں کے غم زدہ شیعوں کی دل جوئی کر رہی ہیں، اپنے وطن میں جان محفوظ نہ دیکھ کرنہ جانے کتنے اس وطن سے کُوچ کر جائیں گے۔۔؟ آخر میں اس ملک میں درندے رہ جائیں گے جو اپنی پیاس باقی بچ جانے والے انسانوں اور پاکستانیوں کے خون سےبجھائیں گے۔آج شیعہ ان درندوں کا شکار ہیں کل بریلوی،اہلِ حدیث، دیوبندی ،مالکی ، شافعی،حنبلی،حنفی وغیرہ وغیرہ تمام ان درندوں کی خوراک ہوں گے۔

پاکستان وہ ملک ہے جہاں ملک اسحاق جیسے قاتلوں پر گل پاشی کی جاتی ہے، اسکے گھر کا نان و نفقہ پنجاب میں براجمان شریف حکمران چلاتے ہیں۔ جہاں ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگوں پر لعنت بھیجی جاتی ہے اور ڈاکٹر سید علی حیدر جیسوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔
دہشت گردی ،تکفیریت، خونریزی اور نفرت کا جو بیج ملعون ضیاء الحق نے بویا تھا آج تناور درخت بن چکا ہے، اگر زندہ رہنا ہے تو اس درخت کو جڑوں سمیت کاٹ کر جلانا ہو گا ورنہ جس طرح ہم شیعہ اپنے گھروں میں لاشیں لیے بیٹھے ہیں ویسے کل ہر ایک ایسا ہی منظر دیکھے گا۔

معروف شاعر اور استاد پرویز ساحر صاحب کی ایک مختصر نظم"سوال؟" تمام  پڑھنے والوں کے لیے چھوڑتا ہوں۔۔امید ہے کہ کچھ تو انسانیت کادردجاگے گا۔۔


آپ ہی حاکم اور محکوم
آپ ہی ظالم اور مظلوم

آپ ہی قاتل اور مقتول
آپ ہی کانٹے، آپ ہی پھول

آخر اہلِ درد ہے کون؟
ہم میں دہشت گرد ہے کون؟



Tuesday 19 February 2013

رخ سے نقاب اٹھائیے، مولاؑ جلد آئیے


رخ سے نقاب اٹھائیے، مولاؑ جلد آئیے
ظلم و جبر مٹائیے، مولا جلد آئیے

سب بر سرِ پیکار ہیں
مرنے کو سب تیار ہیں
یزیدیت مٹائیے،مولاجلد آئیے

مقتل میں پڑے لاشے سارے
ٹکرے ٹکرے لاشے سارے
عرض ہے دفنائیے،مولاؑ جلد آئیے

کربل کا انتظار ہے
کربل تو اب تیار ہے
تلوار کھینچ ڈالیے،مولا جلد آئیے

ظالم کی ساری سرکشی
مظلوموں کے سر پڑی
زوالفقار لائیے،مولا جلد آئیے

تیرے انتظار میں مولا
اصغرؑ جیسوں کا خون بہا
نظرِ کرم فرمائیے،مولا جلد آئیے

بازو بھی کٹے گردن بھی کٹی
نامِ عباسؑ پہ عرفاں ؒ کی
اب پردہ اٹھائیے،مولا جلد آئیے

خوں رستا ہے لاشوں کا
دم گھٹتا ہے پیاروں کا
خوں کا بدلہ چائیے،مولا جلد آئیے

بیٹے کی لاش پہ بیٹھی ہیں
کتنی راتوں سے بیٹھی ہیں
صبحِ نور دکھائیے،مولا جلد آئیے

معصوم بچے کئی راتوں سے
بابا کی لاش پہ بیٹھے ہیں
ہمت نہ آزمائیے،مولا جلد آئیے

ماؤں کی ہے آہ و زاری
بچوں کا ہے گریہ جاری
رخِ انور دکھائیے،مولا جلد آئیے

تو اور تیرا رتبہ عالی
میں اور میرا عمل خاطی
کوئی وسیلہ ڈالیے،مولا جلد آئیے


محصور نے ہر نوحہ گریہ
شہیدوں کے ہے نام کیا
مقدر اب سنواریئے،مولا جلد آئیے

Sunday 17 February 2013

لہو شناخت کیا پھر اسے بہایا گیا


پیاسا ہمیں دشت و صحرا پھرایا گیا
لہو شناخت کیا پھر اسے بہایا گیا

علیؑ کے نام پر کٹتے رہے گلے اپنے
علیؑ کے نام پر سولی ہمیں چڑھایا گیا

وہ کتنی راتیں جو مقتل میں گزاریں ہم نے
وہ کتنے دن تھے یہاں در بدر پھرایا گیا

وہ کتنے چپ تھے میرے قتل پہ دنیا والے
ہر ایک نام کو لکھتا گیا، دھرایا گیا

میرے معصوم سے بچوں پہ  رحم کس نے کیا؟
جو لہو بہتا گیا اس کو پھر بہایا گیا

اے خدا تیری اس دنیا میں ہے ظلم رواں
اندھیری شب میں یہاں جلتا دیا بجھایا گیا

ہر ایک دل کی حسرت کہ ختم ہو ظلم وستم
کوئی تو پوچھے کبھی، کتنا ہمیں ستایا گیا؟

تھا منظر اک ایسا ظلم کی داستانوں میں
خنجر سے گلے کاٹے، دریا میں  پھر بہایا گیا

سبھی کو آس لگی ہے تیرے ولیِ آخرؑ کی
وہی لائے گا عدل ، ایسا ہمیں بتایا گیا

امام عصرؑ تیری چاہت میں ظالم دنیا میں
بہت برسوں، کئی صدیاں، بے حد ستایا گیا