Monday 28 March 2016

ڈنڈا



یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستانی تاریخ میں ڈنڈے کے دھندے کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ آپ آمریت کے ادوار سے جمہوری حکومتوں کے چال چلن میں ڈنڈے کی استعمال پر بغور نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس ریاست میں حکمرانی کے لیےڈنڈا اشد ضروری ہتھیار ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کے لیے جس ڈنڈے کا استعمال سب سے زیادہ کیا گیا وہ جھنڈے سے نکالا گیا تھا۔۔۔۔ ڈنڈا نکالنے والوں کا بس نہیں چلا ورنہ جھنڈے کا سفید حصہ بھی کھینچ لاتے۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے ڈنڈے کے زور پر 'معصوم' بچیوں نے ریاست کو یرغمال بنائے رکھا جو بدستور کیفیتِ یرغمالی میں ہے۔ ملک کے تمام طبقات نے محسوس کیا کہ ڈنڈے کے زور پر اپنی جائز و نا جائز مطالبات منوائے جا سکتے ہیں تو تقریباً ہر مکتبہِ فکر نے ڈنڈے کو ساتھ رکھنا فرض سمجھا۔ کسی فوجی کی بات کو اہمیت نہ دی گئی تو ڈنڈے کے زور سے اپنی اہمیت بتلا دی۔ کسی جج کو اس کی من مانی آئینی و قانونی مطالبات تسلیم نہ کرنے دیے گئے تو اس نے کالے کوٹوں کا ڈنڈا استعمال کر کے ملک میں ایک تماشا بپا کیا رکھا۔ کسی نے ماڈل ٹاؤن میں گلو بٹ "ڈنڈا استعمال کیا، کسی نے کراچی کے سانحات پر مکوں سے ڈنڈا لہرایا۔۔۔کوئی کراچی یونیورسٹی میں لڑکیوں کو کرکٹ کھیلنے پرپیٹ کر اپنے ڈنڈے کا اثر دکھاتا ہے اور کوئی ریڈ زون کی گرین بیلٹ میں بیٹھ کر ڈنڈے لہرا لہرا کر اعلان کر رہے ہیں کہ اب ہمارے "ڈنڈے" کی باری ہے۔ اس تمام ڈنڈا برداری اور اس سے ملحقہ برادری میں سب سے زیادہ نقصان عام عوام کا ہوا۔۔۔ چاہے پشاور میں ہو کہ کراچی میں، ماڈل ٹاؤن میں ہو کہ گلشنِ اقبال میں۔۔ پستے عوام رہے ہیں۔ باوردی ڈنڈا بردار ہوں یا بے وردی ان کے ڈنڈے کل بھی سلامت تھے اور آج بھی سلامت ہیں۔۔