Friday 25 January 2013

وہ سارے لوگ ہمارے ہیں


کس نے کہا ہم ہارے ہیں؟
شبیرؑ پہ بیٹے  وارے ہیں

تم نے جتنے مارے ہیں
وہ سارے لوگ ہمارے ہیں

کوئٹہ بھی تو کربل ہے
پامال لاشے تو سارے ہیں

بازو بھی کٹے کچھ یاروں ہے
بہتے خون کے دھارے ہیں

مسند والے مجرم سارے
سب ہی قاتل ہمارے ہیں

اک دن میں لاشے اتنے
کس کس کے سہارے ہیں

ماؤں کے دکھ کوئی کیا جانے؟
کتنوں کے راج دلارے ہیں

مائیں روتی بیٹوں پر یوں
یہ بھی تو کسی کے پیارے ہیں

اب آبھی جاؤ ،اے مولاؑ
لاشیں لے کرپکارے ہیں

بہت بہتی خوں کی ندیاں
لہو رنگ سارے کنارے ہیں

رسولِ امیں تیری امت نے
تیرے نام پر بےحد مارے ہیں

کوئی تو سنے صدا میری
کتناچیخے ہیں پکارے ہیں

خوں رنگ ہیں آنسو اپنے
نالے بھی خون کے سارے ہیں

ہر سو پھیلی لاشیں ایسی
دیکھو تو کیسے نظارے ہیں

ٹکرے ٹکرے چنتے ان کے
جتنے مقتل میں پیارے ہیں

کر قبول قربانی ان کی
شبیرؑ یہ تیرے پیارے ہیں

یہی نوحہ محصور کا لوگو
سب لاشے پامال ہمارے ہیں

Friday 18 January 2013

لاشوں کا کارواں ہے




عجب سا یہ سماں ہے
لاشوں کا کارواں ہے


لاشوں کے بیچ بیٹھے
ہر اک نوحہ کناں ہے


اک لاش کے سرہانے
اک روتی ہوئی ماں ہے


عجب ہے نوحہ گریہ
عجب شور و فغاں ہے


تو چل دیا کدھر کو؟؟
تیری ماں پریشاں ہے


اُس دن تو یہیں تھا۔
دو دن سے کہاں ہے؟؟


دیکھا تھا تجھ کو شب میں
یا یہ میرا گماں ہے۔؟؟


کچھ تو بتا دے بیٹا
یہ کیسا دھواں ہے۔؟


کتنا تھا خون نکلا؟؟
وہ زخم کدھر، کہاں ہے؟


چوموں میں تجھ کو بیٹا
پر، چہرہ نہ عیاں ہے


اک بار کہہ دو ماں مجھے
کہہ دو تو یہ احساں ہے


بتا نا مجھ کو بیٹا۔۔
کیوں خون میں غلطاں ہے؟؟


قاتل ہے کوئی ایک؟؟
یا قاتل یہ جہاں ہے؟


اک بار پکار مجھ کو
قربان تجھ پہ ماں ہے


حسینؑ یہ بیٹا میرا
تجھ پہ ہی قرباں ہے


تیرے بعد یہ گھر اپنا
بہت سونا اور ویراں ہے


کیسے میں تجھ کو چھوڑوں؟
تو اکبرؑ سا جواں ہے


بیٹا! اتنی سی ہے گزارش
تو ہے تو یہ ماں ہے


رکتا نہیں گریہ میرا
یہ اک سیلِ رواں ہے


آنسو تھے کب سے گرتے
اب ان میں خوں رواں ہے


محصور اب تو رک جا
وہ اپنی ہی تو ماں ہے




محصور 
13 جنوری 2013