Sunday 13 September 2015

مغالطے

ہمارے ہاں ہر چیز کی تعریف میں مغالطے پائے جاتے ہیں ذیل میں ہم کچھ مغالطوں کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔  ان مغالطوں کا تعلق سیاست، معاشرت ،  اور مذہب سے ہے۔ کیا واقعی یہ مغالطے ہیں یا انہوں نے ہمارے معاشرے میں اپنی ایک مستقل جگہ بنا لی ہے؟

سفیرِ امن کون؟وہ جو تقریروں اورتحریروں سے مخالف فرقے کے خلاف نفرت اوراشتعال انگیزی کو ہوا دے۔ جیسے شیعہ کافر، بریلوی مشرک وغیرہ۔
معتدل ؟ وہ جو قاتلوں اور مقتولوں کو ایک عینک سےدیکھے؟ قاتل اور مقتول دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔ کوئی بھی دودھ کا دُھلا نہیں۔
شہید ؟ جو ریاست کے خلاف بندوق اٹھائے وہ بھی شہید (طالبان) جو ریاست کی حفاظت کے لیے بندوق اٹھائے وہ بھی شہید (فوج)۔ اس میں  سیاسی شہیدوں کی لسٹ الگ ہے   وہ  وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
کافر ؟ ہر وہ شخص جو کلمہ پڑھے، نماز ادا کرے، زکوٰۃ ادا کرے تمام عبادات بجا  لائےلیکن  اس کی ادائیگی کا طریقہ  اور جگہ ہم سے ذرا مختلف ہو وہ ' کافر' ہے۔
مسلمان ؟ جسے آئینِ پاکستان ' مسلمان' کہے وہی  پکا مسلمان ہے۔
سیکولر ؟ پاکستان میں ابھی تک کامل سیکولر کوئی سامنے نہیں آیا کیونکہ وقت آنے پر سب کا باطنی مذہبی متعصب چہرہ سامنے  آ جاتا ہے۔
  طالبان ؟  افغانستان میں کاروائی کریں تو وہ مجاہدین ہے لیکن اگر وہ پاکستان میں  کوئی دھماکہ یا خونریزی کریں تو 'دہشت گرد'۔
محبِ وطن ؟ جو تاریخ کی مسخ شدہ تعبیریں تعریف کے ساتھ بیان کرے۔
غدار ؟ ہر وہ شخص جو آپ کا تاریخ کے کڑوے سچ بتائے غدار ہے۔
مہاجر ؟ وہ جو کراچی میں رہتے ہیں اور اردو بولتے ہیں۔
شیعہ ؟ سب ایرانی اور مجوسی نسل ہیں۔اور بریلوی؟ وہ جو قبروں کو پوجتے ہیں۔۔۔ دیوبندی؟ طارق جمیل والے۔
مولانا طارق جمیل  ؟  وہ جو عامر خان کو تبلیغ کی  دعوت دینے گیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالسلام   ؟ قادیانی   اور گستاخ تھا۔ اسی لیے یہودیوں نے اسے   نوبل انعام دیا۔
ملک اسحاق ؟ جس کی قبر سے خوشبو آنے لگی تھی۔
مسیحی ؟ وہ جو مسلمانوں کو پھیلایا گندصاف کرتے ہیں۔۔ عامتہ الناس انھیں چُوڑے، چنگڑ اور مُسلی کے نام سے بھی پکارتی ہے۔
ڈاکٹر ؟ وہ جو ٹی وی پروگراموں میں موبائل اور عمرے کے ٹکٹ دیتے ہیں۔
قصائی ؟ وہ جو اسپتالوں میں ہم سے فیسیں لے کر ہمارا علاج کرتے ہیں۔
شیر کون؟ وہ جو اٹک کے قلعے میں معافی نامے پر دستخط کر کے عمرے کرنے چلا گیا تھا۔
میٹھا پان کیاہے؟ یہ کھا کر انسان ڈگمگانے لگتا ہے، پاکستان علماء کونسل کا انتخابی نشان یہی ہے۔
بھٹو کون؟ آج کل جس کا باپ زرداری ہے وہی بھٹو ہے۔
کپتان کون؟ وہ جو دھرنے کی قیادت کرتا ہے۔
ڈیزل کی تعریف؟ جو کبھی اپوزیشن میں نہیں جاتا۔
پاکستان میں ملحد کون؟ وہ جس اک اپنا ایک ٹویٹر اکاؤنٹ ہے وہی یہاں کا کامیاب ملحد ہے۔
شاعر کون؟ وصی شاہ
حافظ کون؟ ہمارے ہاں جو نابینا ہوتا ہے اسے حافظ کہا جاتا ہے۔
سائیں کی تعریف؟ سندھی علاقوں میں سائیں سے مراد قائم علی شاہ اور بعض علاقوں میں پاگلوں کو اس نام سے پکارا جاتا ہے۔
ڈگری کیا ہے؟   چائنہ کراکری کی طرح کا ایک کاغذ اگر اچھا نتیجہ ہو تو مہمانوں کو دکھاتے ہیں ورنہ سنبھال کے رکھتے ہیں۔

ان مختصر چیزوں اور ان کی تعریفوں کی تفصیل بہت لمبی ہے۔۔۔آپ حسبِ ذائقہ اس میں اضافہ کر سکتے ہیں۔۔۔ اگرپھر کبھی موقع ملے تو ان کی اصل تعریف جمع شدہ تعریف کی ساتھ لکھی جا سکتی ہے۔

Tuesday 8 September 2015

ایک اور گھناؤنی سازش

حافظ عبدالجبار صدیقی ہمارے علاقے میں جماعتِ اسلامی کے سر گرم رکن ہیں، آج ایک محفل میں چند احباب کے سامنے انھوں نے مسلم امہ کے خلاف ایک گھناؤنی سازش کو بے نقاب کیا، ان کے با وثوق ذرائع کے مطابق جرمنی جو شامی پناہ گزینوں کے لیے اتنی گرم جوشی دکھا رہا دراصل یہ سب ایک ڈرامہ رچایا گیا ہے۔۔۔۔ اصل مقصد شامی مسلمانوں کو پناہ کے بہانے عیسائیت کی طرف راغب کرنا ہے۔ شامیوں کو چاہیے کہ اپنی جان دے دیں مگر دولتِ ایمانی پر ہر گز سودا نہ کریں۔ محفل میں تمام احباب نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ بالکل حافظ صاحب ٹھیک فرماتے ہیں یہ ایک گہری سازش ہے جسے ہمیں سمجھنا چاہیے۔

میں بیٹھا یہ سوچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر یہ 'سازشی تھیوریاں' اتنی جلد عوام میں مقبولیت کیسے حاصل کر لیتی ہیں؟ کہیں نہ کہیں کوئی حافظ صاحب ایسے ہوتے ہیں جو اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں اور باقی معتقدین ان کی ہاں میں ہاں ملا لیتے ہیں

7 ستمبر کا آئینی مسلمان


7 ستمبر 1974 کے دن ہم آئینی و قانونی مسلمان ہوئے تھے۔ تب سے بہت سے مسلمانوں کے دیگر ذیلی فرقوں  کو بھی سرکاری طور پر 'کافر' ڈکلیئر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ چوہدری نثار کہتے ہیں دوسروں کو 'کافر' کہنے والوں کے خلاف ریاست ایکشن لے گی۔ لیکن اگر ریاست نے کسی کو 'کافر' کہہ دیا تو دنیا کی کوئی طاقت اس ریاستی قانون کے خلاف ایکشن نہیں لے سکتی۔ یہ حق صرف ریاست کا  ہےاور ریاست ہی  کواس کی اجارہ داری حاصل ہے کہ وہ کسی کو 'کافر' قرار دے دے۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب انہی لوگوں کے ساتھ تصویریں بھی کھنچواتے ہیں جن کے بارے میں وہ ایکشن لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ وہی کہانی ہے کہ ہم دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے ان کی کمر بھی توڑ دیں گے مگر انہی دہشت گردوں اور ان کے 'سہولت کاروں' کے ساتھ مزاکراتی راگ بھی الاپتے رہیں گے۔  یعنی ہمیں مقتولین  اور ان کے لواحقین سے ہمدردی ہے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ قاتلوں کو اس بات پر راضی کر لیں کہ وہ آیندہ  'امن معاہدوں' کی پاسداری کریں۔

Saturday 5 September 2015

کیپٹن آکاش ربانی شہید چوک



ایس ایس جی کمانڈو کیپٹن آکاش ربانی میرے شہر کا باسی تھا اور طالبان سے جنگ کے دوران جامِ شہادت نوش کر گیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ نے شہر کے مشہور غوری میزائل چوک کا نام بدل کر آکاش ربانی چوک رکھ دیا۔۔۔جہاں پر یہ چوک بنایا گیا وہاں ساتھ ہی ایک مسجد ہے جہاں طالبان مجاہدین کی کامیابی کی دعا کی جاتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ چوک آکاش ربانی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا یا اس کی قربانی کا مزاق اڑانے کے لیے۔

یعنی ہم قاتلوں کے مداح بھی ہیں اور شہیدوں کے غم گسار بھی!

Friday 4 September 2015

' تِیلی لا کے'


ہمارے بچپن میں پی ٹی وی پر ایک ہندکو ڈرامہ چلتاتھا، نام تو اس کا یاد نہیں مگر ایک گاؤں کی کہانی ہوتی ہے جہاں لوگ روزمرہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہوتا ہے، محنت مزدوری، چھوٹا سا اسکول، بھیڑ بکریاں، کھیت کھلیاں غرض سب کچھ دکھایا جاتاہے۔  اس ڈرامے میں ایک نائی کا کردار تھا جس کا تکیہ کلام تھا 'تیلی لا کے' (تیلی لگا کے)۔ گاؤں والے جب بھی بال کٹوانے یا داڑھی منڈوانے اس کے پاس جاتے وہ ایک دوسرے کے خلاف ایسا زہر اگلتا کہ انسان کے دل میں کدورتوں کا بیج بو دیتا۔ اصل میں 'تیلی لا کے' سے مراد وہ پہلی تیلی ہے جس سے آگ کو لگایا جاتا ہے۔۔۔ یہ کردار ایسا تھا جو اس اسکرپٹ کے مطابق واقعات اور بیانات کو گاؤں والوں کے سامنے گھما پھرا کر پیش کرتا تھا تا کہ علاقے کا ماحول خراب ہو اور گاؤں میں ہمیشہ نا امنی اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا رہے۔   یعنی گامے کو کہتا کہ پھجے نے اپنی گائے تیری فصلوں میں جان بوجھ کر بھجوائی تاکہ تیری فصل تباہ ہو۔۔۔ یا منّے کو کہتا ٹیوب ویل والا جان بوجھ کر تمہیں  پانی کم دیتا ہے تاکہ تجھے نقصان ہو اور کاکے کو فائدہ ہو ۔۔۔جب کبھی وہ تیلی لگاتا ہے تو ساتھ میں یہ وضاحت ضرور کرتا ہے کہ میں تو  صرف تمہارے بھلے کے لیے یہ کر رہا ہوں ورنہ میرا کاروبار تو بہت اچھا ہے۔۔۔وہ کردار جب بھی اپنی چالاکی اور سفاکی سے کسی کو ایک دوسرے کے خلاف لڑتا دیکھتا تو اسے یہ دیکھ کر سکون ملتا تھا۔ میں جب کبھی بھی مولانا طاہر اشرفی کو یا اس کے سرگرمیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ کردار یاد آ جاتا ہے۔۔۔ یہاں پر مولاناکی دوکان تو نہیں لیکن "ٹویٹر" ضرور موجود ہے جس پر وہ معاشرے میں فتنہ برپا کرتے رہتے ہیں اور ساتھ میں یہ کہہ بھی دیتا ہے میں تو ملک اور امت کی بھلائی کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہوں۔۔۔۔ اشرفی صاحب بھی یوں ہی کہتے ہیں میں تو عدم برداشت کے رویوں کے خلاف ہوں مگر " مرزا قادیان پر۔۔۔۔" میں امت کے اتحاد پر یقین رکھتا ہوں مگر "ابن سبا" والوں پر بھی لعنت۔۔ دراصل یہ "کردار" ہمارے معاشرے میں سرایت کر گیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے مگر وہ "کردار" اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے یہ سب  کچھ کرتا ہے۔