Sunday 23 December 2012

شیعہ کلنگ ڈاٹ کام کے نام چند گزارشات





سلام ادارہ شیعہ کلنگ ڈاٹ کام

شیعہ کلنگ کی ویب سائیٹ، ٹویٹر اکاؤنٹ اور فیس بک پیج نے ہمیشہ یہی تاثر قائم کیا کہ یہ ادارہ خالصتاَ تشیع کے دفاع کے لیے کام کرے گا۔ تشیع کے خلاف ہونے والے ظلم کو نشر کرے گا اور اپنی آواز کو دنیا بھر میں پھیلائے گا۔ گزشتہ کچھ سالوں میں اس ادارے نے حتی الامکان کوشش کی اور بہت حد تک کامیابی بھی حاصل کی۔ خدا اور اہل بیتؑ ان تمام لوگوں کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ آمین


اس ادارے کی سب سے اہم بات تشیع میں تفریق کے پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے تشیع پر ہونے والے مظالم کی تشہیر کرنا اوراتحاد کے لیے کام کرنا ہے۔ جو اس ادارے کا سب سے خوبصورت پہلو اور حسن تھا۔ اتحاد کے اسی نعرے کی بدولت دشمن خائف بھی تھا اور اتحاد کی تشہیر سے پریشان بھی۔اگر تشیع میں اتحاد کا نعرہ یوں ہی لگتا رہا اور تشیع حقیقی اتحاد قائم کر گئی تو باطل کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔



 گزشتہ روز شیعہ کلنگ فیس بک پیج پر ایک Status Update کیا گیا جس کے بعد تشیع کے جوانوں میں اس Status Update سے بہت مایوسی پھیلی ہے۔ وہ ادارہ جو کسی تفریق کا قائل نہیں تھا اس نے  آخر تفریق اور نفاق کی بنیاد رکھ دی۔جوانوں اور ملت کے چیدہ افراد میں مایوسی کو ہوا دے ہی دی۔


 اسStatus Updateسے صرف باطل قوتیں اور ان کے ہرکارے ہی خوش ہوئے ہوں گے اور یقینا" ایسا ہی ہوا۔ آج آپ کے اسی فقرے کو سوشل میڈیا میں دوہرا دوہرا کر تشیع کے علماء، دانشوروں، خطیبوں کو گالیاں دی جا رہی ہیں۔ آپ کے ادارے کو تشیع کی آواز سے زیادہ لادینی قوتوں کی آواز کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ آپ یقینا" مبارک باد کے مستحق ہیں جس مایوسی کا شکار غیر کرنا چاہتے تھے آپ نے خود ہی اس کا آغاز کر دیا۔

مایوسی کی فضا میں مایوسی پھیلانا دشمن کا حربہ ہوتا ہے۔ اگر ہم دشمن کے حربوں میں آتے رہیں گے تو ہم خود ہی اپنے انجام تک پہنچ جائیں گے۔ اگر آپ کو کسی سے شکایت ہے بھی تو اس کا یہ طریقہِ کار نہیں جیسےآپ نے گزشتہ روز کیا۔

تشیع کا ہر فرد ، ادارہ، مدرسہ،انجمن،تنظیم،ماتمی سنگت وغیرہ وغیرہ تمام ایک گھر کی مانند ہیں۔گھر میں چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ پھوٹ پڑیں مگر اس گھر کے ہمدرد تمام جھگڑوں کو چار دیواری کے اندر حل کرتے ہیں۔ دیواروں پر لکھ کر اور چوراہوں میں شور شرابہ کر کے تشہیر نہیں کرتے۔ تشہیر کرنے سے صرف دشمن خوش ہو گا اورگھر کے افراد میں مایوسی پھیلے گی۔


میں امید کرتا ہوں کہ یہ ادارہ ملت میں امید بڑھانے، مایوسی مٹانے میں اپنا کردار ادا کرے گا نہ کہ دشمنوں کی خوش کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرے گا۔ دشمن نفاق کے ایک جملے سے اپنی کامیابیوں کو سینکڑوں قدم آگے محسوس کرنے لگتا ہے۔

والسلام



Wednesday 12 December 2012

وہ بچی محضر زہرا۔۔


یزیدیت جس سے ڈر جائے وہ بچی محضر زہرا
قاتل پہ ایسے وار چلائے وہ بچی محضر زہرا

سب کی چپ پہ افسردہ اپنے غم پہ رنجیدہ
بابا کا اپنے پوچھے جائے وہ بچی محضر زہرا

اپنے بابا کے سنگ چلی،راہ میں کیسے کھو گئی؟
ہر پل ہر دم سوچے جائے وہ بچی محضر زہرا

تو بنتِ علیؑ و زہراؑ، ان دونوں کا ہے پہرہ
اپنے زخموں کوکیسے چھپائے وہ بچی محضر زہرا؟

یہ زخم کبھی بھر جائیں گے، کیا ہو گا دل کے زخموں کا؟
آتے جاتے یہ پوچھے جائے وہ بچی محضر زہرا


ہے یہ دنیا بہت ظالم،بہت بے حس یہ دنیا
آنسو بہا کے کس کو بتائے؟ وہ بچی محضر زہرا

بابا کی لاڈلی تھی لوگو،اب کس کی جان کہلاؤں گی؟
یہ بات کرے اور روتی جائے وہ بچی محضر زہرا

کیا جرم تھا میرے بابا کا؟ کس جرم میں ان کو قتل کیا؟
کوئی تو سنے کوئی مجھ کو بتائے وہ بچی محضر زہرا


ہمت دیکھو دنیا والو،قاتل کا چہرہ جانتی ہے
ظالم بھی جس سے گھبرائے، وہ بچی محضر  زہرا

محصور بہت دور سہی،لب پہ اس کے دعا ہے یہی
جو  صدا پہنچے تو شفا  پائے  وہ بچی  محضر زہرا

Friday 23 November 2012

رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟؟


کربلائے پاکستان میں شہید ہونے والے ہر عزادار کے نام جو روز بروز بڑھتے ظلم و ستم کے ساتھ بھی عزاداریِ سید الشہداءؑ برپا کر رہا ہے۔


جتنا بڑھ جائے ظلم و ستم
رکتا ہے کہاں  نوحہ ماتم؟
جتنا بڑھ جائے ظلم و ستم
بڑھتا ہی رہے نوحہ ماتم


ہرکٹتی گردن کہتی ہے
ہر خون کا قطرہ بولتا ہے
جاری و ساری اس کا غم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


بہتے ہر لہو کے ساتھ
جنازے اور میت کے ساتھ
کرتے ہیں ہم صدا ماتم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


سنو حاضر کی صدا سنو
لبیک حسین ؑ کی صدا  سنو
ہر ماہ ہوتا ماہِ محرم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


ہے محافظِ دینِ خدا
حسینؑ اپنا دینِ خدا
اس سے ہے یہ دنیا قائم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


حسینؑ کی دین و دنیا
قائم  کلمہِ   لا الٰہ
حسینؑ وارثِ شاہِ امم

رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


گواہ رہنا اے ماہِ غم
پھٹتے رہے ہزاروں بم
کرتے رہے سدا ماتم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


ہندو، سکھ کہتے اپنا
شیعہ سنی کہتے اپنا
حسینؑ انوکھا تیرا غم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


ازان و نماز لبیک حسینؑ
یہ گریہ نوحہ لبیک حسینؑ
اپنا ناطہ اس سے قائم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


حوصلہ مت ہارو لوگو
یزیدیت مٹاؤ لوگو
اپنے سرپہ امامِ قائم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


یزید کے پیروکاروں نے
حرمل کے سارے یاروں نے
خون رنگ کیا یہ ماہِ غم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟


محصور عجب سی یہ دنیا
بے حس بے دل یہ دنیا
سب چپ اور یہ ظلم و ستم
رکتا ہے کہاں نوحہ ماتم؟




Wednesday 14 November 2012

مفادات کے غلام



سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک، یوٹیوب،ٹویٹر وغیرہ نے ابلاغ کے شعبے میں حیرت انگیز انداز میں  ترقی کی ہے۔پرنٹ اورالیکٹرونک میڈیا جو حقائق چھپا کے رکھنا چاہتا ہے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی بدولت اب وہ حقائق دنیا کے سامنے باآسانی میسر ہیں۔ اب یہ عقل رکھنے والوں پہ منحصر ہے کہ وہ حق و باطل،درست و غلط کو کن پیمانوں پر تولتے ہیں۔اس سے پہلے موجود میڈیا اپنے مفادات اور پیسوں کی ریل پیل پر خبریں بناتا اور پہنچاتا تھا۔ حقائق کو موڑنا، سچ کو جھوٹ، جھوٹ کو سچ بنانے میں نام نہاد آزاد میڈیا یکتائے ہنر رکھتا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے سوشل میڈیا پر وقت گزارنے سے پتہ چلتا ہے کہ جو میڈٰیا سب اچھے کی رپورٹس دیتا ہے وہ حقائق سے کتنا دور ہوتی ہیں۔میڈیا اس ملک کا چوتھا ستون بن کر ابھرا مگر کالی بھیڑوں کو اس ستون سے باندھ دیا گیا۔ وہ کالی بھیڑیں دن رات ستون سے بندھی اپنے آقاؤں کا کھاتی ہیں اور وہیں پر گندگی پھیلاتی ہیں۔اس گندگی کے مناظر اندرون و بیرونِ ملک تمام محبِ وطن پاکستانیوں نے عمیق نظروں سے دیکھےاور عوامی حمایت یافتہ میڈیا نے سوائے لعن طعن کے کچھ وصول نہ کیا۔ایک اہم مسئلہ جسے ایک عرصے سے میڈیا ،عدلیہ،مقننہ،بیوروکریسی فرقہ واریت کے نام سے عوام کے زہنوں میں ڈال رہی ہے۔ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے ملک میں شیعہ سنی ایک دوسرےکو گلی محلوں میں اور مکانات میں گھس کر مار رہے ہیں۔فرقہ واریت نے اس ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے،اس کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔

Shivangini Pathak ایک ہندوستانی سائکلوجسٹ ہیں ۔سیاست اور حقوقِ انسانی کے لیے سماجی ویب سائٹس پر فعال ہیں ۔پاکستان کے اندر جتنی فرقہ واریت کے نام پر شیعہ نسل کشی ہو رہی ہے اس کا گہرا مطالعہ اور ادراک رکھتی ہیں۔حتٰی گزشتہ روز گزرنے والے ہولی کے تہوار کو بھی سادگی سے منانے کا پیغام دیتی ہیں اس کی وجہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی  میں شہید ہونے والوںسے اظہارِ یک جہتی کرنا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ظلم کے خلاف آوازِ حق بلند کرنے کے لیے کسی خاص فرقہ یا مذہب سے وابستگی ضروری نہیں ۔ ایک آزاد منش انسان مظلوموں پر ہونے والے مظالم کو ایک غیر مسلم ریاست سے بھی بلند کر سکتا ہے۔Shivangini Pathak نے آزاد ہونے کا ثبوت یوں پیش کیا کہ ظلم کوظلم کہا،امن کو امن کہا،مظلوم و محکوم کی دادرسی کیحتٰی اس آواز کو پاکستان میں آکر گلیوں اور چوراہوں میں بلند کرنے کا تہیہ کیا۔ایک آزاد فکر انسان ایسا ہی ہوتا ہے۔
یہاں پر کچھ لمحہ توقف کرتے ہوئے انسانی حقوق کے علمبرداروں، میڈیاکے ٹھیکیداروں، جمہوریت کے پیروکاروں، اسلام کے نام لیواؤں سے دستِ ادب جوڑ کر ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔کیا ہمارا میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں وغیرہ وغیرہ۔ ایک ہندو ملک کی آزاد فکر Shivangini Pathak سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ کیا یہ لوگ اس بے باکی،جرات اور بہادری سے ظلم کو ظلم، حق کو حق کہنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں؟وہی جملہ پھر دہرا رہا ہوں آزاد فکر ہونے کے لیے کسی خاص مذہب کی ضرورت نہیں ہوتی، قدرت نے انسان کو آزاد ہی پیدا کیا یہ اس کی نالائقی تھی جو اس نے خود کو خواہشات،پیسے،اقتدار،لالچ اور مفادات کا غلام بنا لیا۔ مہران اور بولان سے لے کر خیبر تک روزانہ بیسیوں شیعہ مسلمان دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہِ اجل بنتے ہیں مگر مفادات کا غلام آزاد میڈیا انھیں فرقہ واریت کا نام دے کر آگ کو بھڑکاتا جا رہا ہے۔ ایک قوم کی نسل کشی کو مصنوعی نام دے کر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ مفادات کے غلام حق بات کہنے سے گریزاں ہیں کیونکہ مفادات کے نام پر ملنے والی روٹی اور پانی بند ہو جائے گا۔مگر وہ اتنا نہیں جانتے کہ جس مفاداتی روٹی کے سہارے وہ جی رہے ہیں وہ ہمیشہ قائم نہیں رہے گی۔

Saturday 10 November 2012

عیدِ مباہلہ مبارک

رسولؐ ، حسینؑ و حسنؑ کو لے چلے
خیرالنساؑ ،خیبر شکنؑ کو لے چلے
اہلِ نجران کیا کرتے جو صلح نہ کرتے
مباہلہ کی ہار سبھی وطن کو لے چلے

Monday 5 November 2012

شہیدعلامہ آفتاب حیدر جعفری ؒ کے نام

خطیبِ آلِ عباؑ، آج قتل ہوا
عالمِ با وفا، آج قتل ہوا


محرم سے پہلے بچھی صفِ ماتم
ہوئی کربل بپا، آج قتل ہوا

مثلِ آفتاب شہادت کی کرنیں
چمکتا دھمکتا، آج قتل ہوا

میدانِ عمل کا سپاہی تھا وہ
خطیبِ کربلا، آج قتل ہوا

جوانوں کے لاشے اٹھاتا تھا وہ
ہمارا سہارا، آج قتل ہوا

عرفہ کے دن وہ مجلس و ماتم
وہ گریہ تمہارا، آج قتل ہوا

لاکھوں سلام تیری ماں کو خطیب
بیٹا جو پالا، آج قتل ہوا

خاتونِ جناںؑ نازاں ہے تجھ پر
سیدہؑ کی دعا، آج قتل ہوا

قائم ہے مجلس، قائم ہے ماتم
سرِ فرشِ عزا ،آج قتل ہوا

آفتابؒ تیرے بہتے لہو کو سلام
محصور کا نوحہ، آج قتل ہوا

شانِ جنازہ دیکھو تو سہی
فاطمہؑ کا دلارا، آج قتل ہوا


شاہدؒ تیرا ہمسفر جعفریؒ
وہ بھی قتل ہوا آج قتل ہوا

Saturday 3 November 2012

اب عیدِ غدیر کی بات کرو


کربل غدیر کی بات کرو
حیدرؑ شبیر ؑ کی بات کرو


اٹھارہ ذوالحج ہے واعظ
منبر تعمیر کی بات کرو


کتنا خوش عالم ہے آج
خوش بخت تقدیر کی بات کرو


دستِ پیمبرؐ، دستِ خدا
دستِ شمشیر کی بات کرو


گفت و شنید ملائک کی
شبرؑ شبیر ؑ کی بات کرو


بہت غم دیکھے ، دکھ کاٹے
اب عیدِ غدیر کی بات کرو


سب سے اعلٰی عیدِ غدیر
اس کی تشہیر کی بات کرو


اصغرؑ کی شجاعت کیا کہنا
ضربِ بے شیرؑ کی بات کرو


درود و سلام درِ زہراؑ پر
آیتِ تطہیر کی بات کرو


جن و انس بہت شاداں
عالم میں تنویر کی بات کرو


جو لکھے مدح آلِ عباؑ
ہاں اس تحریر کی بات کرو



جوشؒ و انیسؒ سب کو سننا
 کچھ پل دبیر ؒکی بات کرو 



جس نے کہا یہ مولائے کلؑ
اس کی تقریر کی بات کرو


کلِ ایماں کہا جس نے
اس کے ویر کی بات کرو۔
۔۔۔۔۔۔
محصور





Wednesday 31 October 2012

جب اس کی عدالت آئے گی



جب اس کی امامت آئے گی
جب اس کی قیادت آئے گی
جب اس کی سیادت آئے گی
جب اس کی شجاعت آئے گی

معصوم کا گریہ بولے گا
ہر خونِ نا حق بولے گا
۔۔



جو رستوں میں ہیں مارے گئے
جو مسجدوں میں ہیں مارے گئے
جو رزق کے جرم میں مارے گئے
جو عشق کے جرم میں مارے گئے

وہ سب پائیں گے اپنی جزا
قاتل پائیں گے اپنی سزا
۔۔



وہ عَلمِ امن لہرائے گا
وہ گلشن کو مہکائے گا
ہر حجر و شجر یہ بولے گا
ہر نیزہ و خنجر بولے گا

عدل و عدالت اس کی سجے گی
ظلم و جبر کی ہستی مٹے گی
۔۔



جو ماں بہنوں کے مجرم ہیں
جو مزدوروں کے مجرم ہیں
پھولوں کلیوں کے مجرم ہیں
ننھے بچوں کے مجرم ہیں

ظلم کی آندھی جائے گی
جب اس کی عدالت آئے گی
۔۔



فرزندِ مرسلؐ، پسرِ زہراؑ
وارثِ منبر، پسرِ زہراؑ
شجاع،بہادر، پسرِ زہراؑ
مغمومِ کربل، پسرِ زہراؑ

ہیں ہم منتظر اے امامِ زمانہؑ
یہ قلب و نظر، اے امامِ زمانہؑ
۔۔


لفظوں کی جراٗت تیرے نام
حرفوں کی حرکت تیرے نام
جذبوں کی حرارت تیرے نام
اشکوں کی عبادت تیرے نام

یہ جو میری ہمت ہے
تیرے در کی خدمت ہے
۔۔



نامِ خدا پہ مارا ہم کو
نامِ خداپہ کاٹا ہم کو
نامِ خدا پہ جلایا ہم کو
نامِ خدا پہ ستایا ہم کو


 یہ  بھی کوئی بندگی ہے۔؟
 جیسی تیری زندگی ہے۔؟
۔۔



محصور سنائے اپنا کلام
بحضورِ اقدس شہِ انامؑ
میں ہوں بس ادنٰی سا غلام
نظرِ کرم مجھ پریا امامؑ

تیرے در کا گدا رہنا ہے
یہیں جینا یہیں مرنا ہے

۔۔۔

محصور



Monday 29 October 2012


بے حسی


بے حس ہونے کے لیے کسی ذات پات، رنگ و نسل، کی ضرورت نہیں  ہر کوئی بحیثیتِ انفرادی و اجتماعی بے حس ہو سکتا ہے۔ دورِ حاضر میں قومیں بھی بےحس ہو جاتی ہیں، جب قومیں بے حس ہو جائیں تو ان کے اندر قوم کہلانے کی ہمت اور روح باقی نہیں رہتی۔ہمارا وطن جسے ایک قوم کے نعرے نے ہزاروں لوگوں کی قربانیوں  دے کر حاصل کیاتھا اس وقت بے حسی کے اعلیٰ درجے پر فائز ہے۔کراچی سے خیبر اور زیارت سے گلگت تک روزانہ بیسیوں لوگ مارے جاتے ہیں اور کسی کے کانوں پر جوں تک  نہیں رینگتی۔ ریاست کے امن وا مان کی ذمہ داری پر مامور وزیرِ داخلہ نمازِ عید پر امن و امان کو یقینی بنانے پر میڈیا اور قوم سے دادِ تحسین وصول کرنا چاہتے تھے مگر عین اسی لمحے نوشہرہ سے کاکا صاحب کے مزار پہ بم دھماکے کی اطلاع ملتی ہے اور  دادِ تحسین نفرین میں بدل جاتی ہے۔عجیب سانحہ تو وہ بیانات ہیں جو دھماکوں سے بھی بڑھ کر ہیں  اور وہ یہ  پاکستان میں دھماکے سیکیورٹی ایجنسیاں کروا رہی ہیں اور طالبان کو بدنام کر رہی ہیں ۔طالبان اور ایجنسیوں کے رشتے سے نا واقفیت بھی ایک جرم سمجھا جائے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستانی قوم نے بحیثیتِ مجموعی بے حس ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اس کا اندازہ ملالہ یوسف زئی کے واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ملالہ سوات میں طالبان دہشت گردوں سے قلم اور کتاب کے ذریعےجنگ لڑ رہی تھی اور قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو گئیں۔اس واقعے پر پوری قوم سراپا احتجاج تھی مگر افسوس ملک میں پڑھے لکھے دانشوروں نے چاہے دائیں بازو سے ہوں یا بائیں بازو سے اپنے نظریے اور موقف کو منوانے کے لیے میڈیا اور با لخصوص سوشل میڈیا پر وارد  ہوئے۔اس بچی کا درد تو ایک طرف رہا ہماری بحث کا موضوع اس طرف مڑ گیا کہ ہم نے اپنے مخالف کو اس واقعےسے کیسے مات دینی ہے اور کیسے  اس کے نظریے کو پچھاڑنا ہے۔ہمارے پڑھے لکھے روشن خیال دانشوروں کو یہ احساس نہیں کہ جب کسی کا بیٹا یا بیٹی خون میں لت پت پڑی ہوتی ہے تو اس کے عزیزوں کو  درد شدت سے محسوس ہوتا ہے اور  اس کا احساس وہی کر سکتے ہیں۔حسِ درد کے لیے کسی نظریے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہمارے قومی رویے میں یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ ہمارے جاہل مزدور سے لے کر پڑھے لکھے دانشور میں بات کرنے کا سلیقہ ہے نہ ہی سننے کا ہنر، ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ کیسے اپنے مخالف کو  چِت کیا جائے؟، جو عدمِ برداشت سے زیادہ  بے حسی کی علامت ہے۔ہم آج بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ جو لوگ ہمارے بچوں پر حملہ کر رہے ہیں ،ہمارے جوانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ان سے مزاکرات کیے جائیں یا جنگ؟ ایک سادہ سی بات کچھ لوگ سمجھ نہیں پا رہے ۔اگر کوئی گھر کی چار دیواری میں اسلحے سے لیس ہو کر گھس جائے تو اس وقت اپنا اور گھر کا دفاع لازم ہو جاتا ہے۔دہشت گرد ہمارے گھروں کے اندر گھس کر ہمارے بچوں کو کاٹ رہے ہیں اور ہم مزاکرات کے راگ الاپ رہے ہیں ۔شاید جو مزاکرات کی نغمے گا رہے ہیں ان کا اپنا خون کبھی کسی بھیڑیے کے ہاتھوں ذبح نہیں ہوا یا شاید بھیڑیوں سے کوئی مشترکہ فائدہ حاصل کرنا مقصودہے۔اسے بذدلی کہیں ،بے حسی کہیں یا حکمتِ عملی یہ سوال پڑھنے والوں کے لیے چھوڑتا ہوں۔ دفاعِ وطن مقدم ہے چاہے گھر کے اندر نااتفاقی اور انتشار ہی کیوں نہ ہو، بیرونی دشمن سے نمٹ کر  ہی خلفشار کے  نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ان تربیت گاہوں کو ختم کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے جو دہشت اور خون خوار بھیڑیوں  کو انسانوں کو کاٹنے کے لیے  تربیت دیتے ہیں۔بے حسی کا خاتمہ اپنے وجود کے اظہار سے ہو سکتا ہے نہ کہ اپنے آپ کو  کسی بے رحم کے سامنے کٹنے کے لیے چھوڑ دینے سے۔


Thursday 25 October 2012

یہ کیسی عید آئی لوگو؟ عید شہیدوں کے نام


پھر آنکھ بھر آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


بیٹا بیٹی بابا کی لحد پہ
ماں بیٹھی بیٹے کی لحد پہ
کیسی یہ رت آئی لوگو ؟
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


تازہ گزشتہ عید کے زخم
آہ و سسکی، تازہ ماتم
کیوں عیدِ قرباں آئی لوگو؟
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


عیدِ قرباں اور بیٹا قرباں
دکھیا ماں اور بیٹا قرباں
ہچکی سسکی آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


جلالؒ  ، نثار ؒ کی یاد آئی
رقت حنیفؒ  کی یاد آئی
پھر سے دکھ لائی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


علی عباسؒ نے زخم سہے
چار سال سے درد سہے
کِھلتے ہی قضا آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


اپنا نوحہ اِ س عید کے نام
ہے ہر نوحہ اِس عید کے نام
محرم یہ عید لائی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


گھر سے دور، سب مجبور
کوئی قیدی ، کوئی محصور
کب عید ایسے آئی لوگو؟
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


ہے مسلم ؑپہ ہم نے رونا
ہے اس کے بچوں پر رونا
کوفے سے خبر آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


اہلِ حرم اور تنہا حسینؑ
مسلمؑ کا زخم اور تنہا حسینؑ
زینبؑ کربل آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


عباسؑ تیرا آقا، مولا حسینؑ
تو خادمِ زینبؑ و مولا حسینؑ
فضہؑ کی صدا آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


شہیدوں نے یہ کام کیا
رسمِ کربل کو عام کیا
جب کٹتی گردن آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


کن زخموں کا زکر کروں؟
کیسے حرفوں کو میں جوڑوں؟
شدت دکھ میں آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟

۔۔۔۔

محصور
۔۔۔