Friday 22 November 2013

نئے انداز کے پرانے تکفیری

نئے انداز کے پرانے تکفیری

وطنِ عزیز پاکستان   شدید ترین  دہشت گردی اور تکفیریت کی لپیٹ میں ہے، جو پودا  چھاؤنیوں میں ایک فوجی آمر کے زیرِ سایہ لگایا گیا تھا اس وقت تناور درخت کی صور ت اختیار کر چکا ہے۔  ہر دور کے  صاحبِ اقتدار آمر نے اس پودے کی ایسی نشو نما کی کہ ملک کے کونے کونے میں اس بدنماو درخت نے اپنے پھل سے دہشت گردی کو مزید پروان چڑھایا۔ نہ صرف پاکستان حتٰی پڑوسی ملک بھی  آج تک اس سے متاثر  ہو رہے ہیں۔
گزشتہ تیس سالوں میں ہزاروں پاکستانی( شیعہ، سنی،احمدی،عیسائی،ہندو) سب کے سب  ایک مخصوص فکر اور ٹولے کی  دہشت گردی کا شکار ہیں۔ سپاہ صحابہ نامی ایک دہشت گرد تنظیم جو اپنا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے بتاتی ہے، تمام مکاتیبِ فکر کے خلاف روزِ او ل سے زہر اُگل رہی ہے ۔ ان کی نفرتوں کا نشانہ  مخالف گروہوں  کے مذہبی اجتماعات اور عقائد رہے ہیں، جیسے عید میلاد النبی ؐ کےجلوسوں سے لے کر  محرم کی محافل اور جلوس زیرِ عتاب رہے ہیں۔ کبھی تقریروں سے اور کبھی  تحریروں سے  تکفیریت کی فیکٹری کھولی گئی اور  بلا تخصیص کفر کے فتوے ایک مخصوص انداز میں چھپتے  رہے۔کالعدم سپاہ صحابہ جو آج کل اہلِ سنت والجماعت لکھنے اور پکارے جانے پہ مُصر ہے  ۔چہ جائیکہ اہلِ سنت کی  اہم جماعتیں  او ر طبقے اس سے لا تعلقی کا  اعلان کر چکی ہیں۔

گزشتہ جمعہ راولپنڈی راجہ بازار میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، میں اس واقعے کی گہرائی اور اس کے محرکات کی طرف نہیں جانا چاہتا ، سوشل میڈیا پہ برما، شام ،عراق، داتا دربار کی تصویریں ہر ایک نے دیکھیں اور  اس سے جتنا اشتعال پھیلایا گیا وہ کسی ذی شعور کو سمجھنے کے لیے کافی ہے،
اس واقعے کے فوراً بعد  ایک مخصوص گروہ سامنے آیا  جو خود کو پروگریسیو کہتا ہے، نیوٹرل کہتا ہے، کسی ایک مکتبہ فکر سے تعلق جوڑنے کو بھی منافقت کہتا ہے،  سادہ الفاظ میں سیکولر لبرل کہتا ہے،مگر وہی گروہ پچھلے ایک  ہفتے سےتکفیریوں  کو مسلسل اہلِ سنت کے ساتھ جوڑ کر  واقعے کو شیعہ سنی فساد کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے، تکفیریوں کی ساری قتل و غارت گری کو ایک  پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سپاہ صحابہ کی تکفیری دہشت گردوں کی کاروائیوں سے کون نا آشنا ہے؟

تکفیریوں نے کفر ساز فیکٹریاں کھولیں اور سرِ دیوار  کفر کے فتوے کندہ کیے،
تکفیریوں نے چن چن کر پاکستان کے نابغہ روزگار ہستیوں کو قتل کیا،
تکفیریوں نے مساجد، امام بارگاہوں، جلسوں ، جلوسوں میں خون بہایا ، 
تکفیریوں نے اپنی نفرت آمیز تقریروں سے اس قوم کو خود کش بمباروں کی فوج دی،
تکفیریوں نے  اپنے مدرسوں سے ملا فضل اللہ جیسے  انسان دشمن اور حیوان صفت درندے دیے،
الغرض پاکستان کے ہر سانحے کے پیچھے کہیں نہ کہیں تکفیری گروہ یا اس کے مدارس کار فرما رہے ہیں۔
ہم نے  پہلے دن سے یہ کہا اور یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ یہ تکفیری خود کو پر امن اہلِ سنت کے ساتھ جوڑ کر ان تمام گناہوں پر پردہ ڈال رہے ہیں جو انہوں نے گزشہ تیس سالوں میں اس ملک میں کیے۔  ایک منظم سازش کے تحت ٹویٹر کا پروگریسیو اور  سیکولر مافیا تکفیریوں کے مظالم پر پردہ ڈال رہا ہے، اور تکفیریوں کے مطالبات پر ہاں پر ہاں ملا رہا ہے، کہ  جیسے بھی ممکن ہو مذہبی جلوس پر پابندی لگائی جائے،  عبادتو ں کو چار دیواری میں مقید کیا  جائے، مسائل کی اصل وجہ یہ جلسے  جلوس ہی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بذدلانہ اور غیر ممکن  مطالبات کا سلسلہ  جاری و ساری ہے، اور جب جب ان آوازوں کا روکا گیا، ان کی تصحیح کی گئی تو وہی  لوگ شیعہ نسل  کشی  کو   سارکزم اور طنز  کے ایک پیرائے میں گزار تے رہے ہیں۔ جیسے شیعہ نسل کشی تو ابھی ابھی کی بات ہے۔

دنیا کی ہر مہذب قوم تمام مذاہب کے لوگوں کو  مذہبی آزادی کا حق دیتی ہے اور دنیا بھر میں  جلسے جلوس ہوتے ہیں مگر یہاں مذہبی رسومات کو قید کرنے میں با ریش اور بنا ریش کے تکفیری منظم ہیں۔ بہر حال تکفیریوں  کی شناخت بہت ضروری ہے،   کیونکہ کہ یہ جہاں بھی رہیں گے وہاں نفرت اور  خوں ریزی  کا بازار گرم رہے گا۔جیسے کلین شیو طالبان دوست موجود ہیں ویسے ہی لبرل  سیکولر تکفیری بھی موجود ہیں۔ ان  چہروں کو جاننے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے، یقیناً وہ لوگ  ماضی میں  جماعتیے یا تکفیری گروہوں کا حصہ رہ چکے ہوں گے اور آج  اپنے اندر کا  بغض اس انداز میں نکال رہے ہیں۔ ایک طرف آزادی اظہار اور مکمل مذہبی آزادی کے دعوے اور دوسری طرف عمداًتکفیریوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی لیے سر گرم، حقیقت جو بھی مگر یہ سب کے سب نئے انداز کے پرانے تکفیری ہیں!