Wednesday 31 October 2012

جب اس کی عدالت آئے گی



جب اس کی امامت آئے گی
جب اس کی قیادت آئے گی
جب اس کی سیادت آئے گی
جب اس کی شجاعت آئے گی

معصوم کا گریہ بولے گا
ہر خونِ نا حق بولے گا
۔۔



جو رستوں میں ہیں مارے گئے
جو مسجدوں میں ہیں مارے گئے
جو رزق کے جرم میں مارے گئے
جو عشق کے جرم میں مارے گئے

وہ سب پائیں گے اپنی جزا
قاتل پائیں گے اپنی سزا
۔۔



وہ عَلمِ امن لہرائے گا
وہ گلشن کو مہکائے گا
ہر حجر و شجر یہ بولے گا
ہر نیزہ و خنجر بولے گا

عدل و عدالت اس کی سجے گی
ظلم و جبر کی ہستی مٹے گی
۔۔



جو ماں بہنوں کے مجرم ہیں
جو مزدوروں کے مجرم ہیں
پھولوں کلیوں کے مجرم ہیں
ننھے بچوں کے مجرم ہیں

ظلم کی آندھی جائے گی
جب اس کی عدالت آئے گی
۔۔



فرزندِ مرسلؐ، پسرِ زہراؑ
وارثِ منبر، پسرِ زہراؑ
شجاع،بہادر، پسرِ زہراؑ
مغمومِ کربل، پسرِ زہراؑ

ہیں ہم منتظر اے امامِ زمانہؑ
یہ قلب و نظر، اے امامِ زمانہؑ
۔۔


لفظوں کی جراٗت تیرے نام
حرفوں کی حرکت تیرے نام
جذبوں کی حرارت تیرے نام
اشکوں کی عبادت تیرے نام

یہ جو میری ہمت ہے
تیرے در کی خدمت ہے
۔۔



نامِ خدا پہ مارا ہم کو
نامِ خداپہ کاٹا ہم کو
نامِ خدا پہ جلایا ہم کو
نامِ خدا پہ ستایا ہم کو


 یہ  بھی کوئی بندگی ہے۔؟
 جیسی تیری زندگی ہے۔؟
۔۔



محصور سنائے اپنا کلام
بحضورِ اقدس شہِ انامؑ
میں ہوں بس ادنٰی سا غلام
نظرِ کرم مجھ پریا امامؑ

تیرے در کا گدا رہنا ہے
یہیں جینا یہیں مرنا ہے

۔۔۔

محصور



Monday 29 October 2012


بے حسی


بے حس ہونے کے لیے کسی ذات پات، رنگ و نسل، کی ضرورت نہیں  ہر کوئی بحیثیتِ انفرادی و اجتماعی بے حس ہو سکتا ہے۔ دورِ حاضر میں قومیں بھی بےحس ہو جاتی ہیں، جب قومیں بے حس ہو جائیں تو ان کے اندر قوم کہلانے کی ہمت اور روح باقی نہیں رہتی۔ہمارا وطن جسے ایک قوم کے نعرے نے ہزاروں لوگوں کی قربانیوں  دے کر حاصل کیاتھا اس وقت بے حسی کے اعلیٰ درجے پر فائز ہے۔کراچی سے خیبر اور زیارت سے گلگت تک روزانہ بیسیوں لوگ مارے جاتے ہیں اور کسی کے کانوں پر جوں تک  نہیں رینگتی۔ ریاست کے امن وا مان کی ذمہ داری پر مامور وزیرِ داخلہ نمازِ عید پر امن و امان کو یقینی بنانے پر میڈیا اور قوم سے دادِ تحسین وصول کرنا چاہتے تھے مگر عین اسی لمحے نوشہرہ سے کاکا صاحب کے مزار پہ بم دھماکے کی اطلاع ملتی ہے اور  دادِ تحسین نفرین میں بدل جاتی ہے۔عجیب سانحہ تو وہ بیانات ہیں جو دھماکوں سے بھی بڑھ کر ہیں  اور وہ یہ  پاکستان میں دھماکے سیکیورٹی ایجنسیاں کروا رہی ہیں اور طالبان کو بدنام کر رہی ہیں ۔طالبان اور ایجنسیوں کے رشتے سے نا واقفیت بھی ایک جرم سمجھا جائے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستانی قوم نے بحیثیتِ مجموعی بے حس ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اس کا اندازہ ملالہ یوسف زئی کے واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ملالہ سوات میں طالبان دہشت گردوں سے قلم اور کتاب کے ذریعےجنگ لڑ رہی تھی اور قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو گئیں۔اس واقعے پر پوری قوم سراپا احتجاج تھی مگر افسوس ملک میں پڑھے لکھے دانشوروں نے چاہے دائیں بازو سے ہوں یا بائیں بازو سے اپنے نظریے اور موقف کو منوانے کے لیے میڈیا اور با لخصوص سوشل میڈیا پر وارد  ہوئے۔اس بچی کا درد تو ایک طرف رہا ہماری بحث کا موضوع اس طرف مڑ گیا کہ ہم نے اپنے مخالف کو اس واقعےسے کیسے مات دینی ہے اور کیسے  اس کے نظریے کو پچھاڑنا ہے۔ہمارے پڑھے لکھے روشن خیال دانشوروں کو یہ احساس نہیں کہ جب کسی کا بیٹا یا بیٹی خون میں لت پت پڑی ہوتی ہے تو اس کے عزیزوں کو  درد شدت سے محسوس ہوتا ہے اور  اس کا احساس وہی کر سکتے ہیں۔حسِ درد کے لیے کسی نظریے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہمارے قومی رویے میں یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ ہمارے جاہل مزدور سے لے کر پڑھے لکھے دانشور میں بات کرنے کا سلیقہ ہے نہ ہی سننے کا ہنر، ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ کیسے اپنے مخالف کو  چِت کیا جائے؟، جو عدمِ برداشت سے زیادہ  بے حسی کی علامت ہے۔ہم آج بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ جو لوگ ہمارے بچوں پر حملہ کر رہے ہیں ،ہمارے جوانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ان سے مزاکرات کیے جائیں یا جنگ؟ ایک سادہ سی بات کچھ لوگ سمجھ نہیں پا رہے ۔اگر کوئی گھر کی چار دیواری میں اسلحے سے لیس ہو کر گھس جائے تو اس وقت اپنا اور گھر کا دفاع لازم ہو جاتا ہے۔دہشت گرد ہمارے گھروں کے اندر گھس کر ہمارے بچوں کو کاٹ رہے ہیں اور ہم مزاکرات کے راگ الاپ رہے ہیں ۔شاید جو مزاکرات کی نغمے گا رہے ہیں ان کا اپنا خون کبھی کسی بھیڑیے کے ہاتھوں ذبح نہیں ہوا یا شاید بھیڑیوں سے کوئی مشترکہ فائدہ حاصل کرنا مقصودہے۔اسے بذدلی کہیں ،بے حسی کہیں یا حکمتِ عملی یہ سوال پڑھنے والوں کے لیے چھوڑتا ہوں۔ دفاعِ وطن مقدم ہے چاہے گھر کے اندر نااتفاقی اور انتشار ہی کیوں نہ ہو، بیرونی دشمن سے نمٹ کر  ہی خلفشار کے  نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ان تربیت گاہوں کو ختم کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے جو دہشت اور خون خوار بھیڑیوں  کو انسانوں کو کاٹنے کے لیے  تربیت دیتے ہیں۔بے حسی کا خاتمہ اپنے وجود کے اظہار سے ہو سکتا ہے نہ کہ اپنے آپ کو  کسی بے رحم کے سامنے کٹنے کے لیے چھوڑ دینے سے۔


Thursday 25 October 2012

یہ کیسی عید آئی لوگو؟ عید شہیدوں کے نام


پھر آنکھ بھر آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


بیٹا بیٹی بابا کی لحد پہ
ماں بیٹھی بیٹے کی لحد پہ
کیسی یہ رت آئی لوگو ؟
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


تازہ گزشتہ عید کے زخم
آہ و سسکی، تازہ ماتم
کیوں عیدِ قرباں آئی لوگو؟
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


عیدِ قرباں اور بیٹا قرباں
دکھیا ماں اور بیٹا قرباں
ہچکی سسکی آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


جلالؒ  ، نثار ؒ کی یاد آئی
رقت حنیفؒ  کی یاد آئی
پھر سے دکھ لائی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


علی عباسؒ نے زخم سہے
چار سال سے درد سہے
کِھلتے ہی قضا آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


اپنا نوحہ اِ س عید کے نام
ہے ہر نوحہ اِس عید کے نام
محرم یہ عید لائی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


گھر سے دور، سب مجبور
کوئی قیدی ، کوئی محصور
کب عید ایسے آئی لوگو؟
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


ہے مسلم ؑپہ ہم نے رونا
ہے اس کے بچوں پر رونا
کوفے سے خبر آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


اہلِ حرم اور تنہا حسینؑ
مسلمؑ کا زخم اور تنہا حسینؑ
زینبؑ کربل آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو؟


عباسؑ تیرا آقا، مولا حسینؑ
تو خادمِ زینبؑ و مولا حسینؑ
فضہؑ کی صدا آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


شہیدوں نے یہ کام کیا
رسمِ کربل کو عام کیا
جب کٹتی گردن آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟


کن زخموں کا زکر کروں؟
کیسے حرفوں کو میں جوڑوں؟
شدت دکھ میں آئی لوگو
یہ کیسی عید آئی لوگو۔؟

۔۔۔۔

محصور
۔۔۔






Wednesday 24 October 2012

طالبان انسانیت کے ہیں دشمن۔۔



اپنے ملک کا دنیا میں نام کر ڈالو
یزیدِ عصر کا قصہ تمام کر ڈالو
طالبان انسانیت کے ہیں دشمن
یہ جملہ زبانِ زدِ عام کر ڈالو

۔۔محصور

Tuesday 23 October 2012

اس ماں کی حالت کیا ہو گی۔۔؟؟



پوچھتا ہوں تجھ سے ظالم
تو ہی بتا مجھ کو ظالم
جس ماں کے لال کو تو نے
بے رحمی سے مارا تھا
بے دردی سے کاٹا تھا

اب اور قیامت کیا ہو گی۔۔؟
اس ماں کی حالت کیا ہو گی۔۔؟
۔۔۔
صبح سویرے دکھیاری نے
اپنے ہاتھوں سے بیٹے کو
شفقت سے لقمہ ڈالا تھا
ماتھا اس کا چوما تھا

شام کی ظلمت کیا ہو گی۔۔؟
اس ماں کی حالت کیا ہو گی۔۔؟
۔۔۔

باندھ کے پیٹ پہ اس نے پتھر
پالا تھا بیٹے کو ڈر کر
گرمی میں سایہ ہوتی تھی
سردی میں نرم سا بستر

پھر وہ شفقت کیا ہو گی۔۔؟
اس ماں کی حالت کیا ہو گی۔۔؟
۔۔۔
روتی تھی زہراؑ کے زخموں پر
یا اس کے پیاسے بچوں پر
اب ہر پل روتی رہتی ہے
کربل کو سوچتی رہتی ہے

اب اس سے حرکت کیا ہو گی۔۔؟
اس ماں کی حالت کیا ہو گی۔۔؟
۔۔۔
کیا ہاتھ نہیں کانپے تیرے۔۔؟
کیا آنکھ نہیں جھپکی تیری۔۔؟
کیا دل نہیں دھڑکا تیرا۔۔؟
جب پھوٹا خون کا فوارہ۔

گلو کی حالت کیا ہو گی۔۔؟
اس ماں کی حالت کیا ہو گی۔۔؟
۔۔۔
حسیں جواں تھا بیٹا اس کا
باپ کی جاں تھا بیٹا اس کا
تصویر بیٹے کی دیکھتی ہے
جیتی ہے نہ مرتی ہے


چہرے کی وجاہت کیا ہو گی۔۔؟
اس ماں کی حالت کیا ہو گی۔۔؟

۔۔۔۔۔
محصور







Sunday 21 October 2012

فرزندِ رسولؐ علی رضا تقوی شہید کے نام




ناموسِ محسنِ انساںؐ پر
بات آئی صاحب قرآںؐ پر

غیرت کے پیکر بیٹے نے
جاں دی ہے تقیؑ کے بیٹے نے

ہے صادق سچا علی رضا
امیںؐ پہ قرباں علی رضا

مقصود شہادت تھی اس کی
منسوب شہادت تھی اس کی

صادق نے کہا ہے اپنا فخر
ماں ، بہنوں،بیٹوں کا فخر

 ہے نام علی، فرزندِ علیؑ
سرورؐ پہ قرباں، فرزندِ علیؑ

وفائے ابو طالبؑ ثابت
کام سے تیرے علی ثابت

احمدؐ کا محافظ عمراں ؑ ہے
یا اس کی نسل کا کوئی جواں ہے

شجاع وہ، جو مردِ میداں ہے
تقوی ہی مردِ میداں ہے

شعور تھا اس کو شہادت کا
معلوم تھا اس کو شہادت کا

۔۔۔۔۔۔۔
محصور
اکتوبر،۲۱،۲۰۱۲

Saturday 20 October 2012

دھشت ہٹے، رہے دنیا امن سے۔۔




جمودِ سکوں پہ کیوں خاموش ہے۔۔؟
بڑھتے جنوں پہ کیوں خاموش ہے۔۔؟
بریدہ سروں پہ کیوں خاموش ہے۔۔؟
جلتے گھروں پہ کیوں خاموش ہے۔۔؟

بولو کہ انساں کی پہچان ہو
حیواں وشیطاں کی پہچان ہو
۔۔۔

جو انساں پہ کرتا ہے غارتگری
جو چھینے ہے ہم سے ہماری خوشی
جو قلموں کتابوں سے ڈرتا ہے جی
چلاتا ہے خنجر وہ گولی کو بھی

جنگ  کا  آغاز کرتا  ہوں  میں
بتا دو نہیں ان سے ڈرتا ہوں میں
۔۔۔
حسیں وادیوں پہ ہیں چھائے ہوئے
درندوں کا لشکر بنائے ہوئے
جنت کو دوذخ بنائے ہوئے
دیں کا تماشا بنائے ہوئے

یہ مسلم نہیں ، اس کی پہچاں نہیں ہے
خدا کی قسم وہ تو انساں نہیں ہے
۔۔۔

کرو بات ان سے ،جو کہتے ہیں لوگ
وہی ان سے ملتے ملاتے ہیں لوگ
پھول سے کانٹے ملاتے ہیں لوگ
وہی ان کے ساتھی یہ چاہتے ہیں لوگ

درندوں سے ملتا ملاتا ہے کون۔۔؟
درندوں کی بھاشا سمجھتا ہے کون۔۔؟
۔۔۔

پھولوں کی بستی بساتے ہیں پھر سے
چلو آوٗ ہنستے ہنساتے ہیں پھر سے
گیت امن کے سناتے ہیں پھر سے
اجڑے گھروں کو بساتے ہیں پھر سے

قائم رہے یہاں دنیا امن سے
دہشت ہٹے، رہے دنیا امن سے
۔۔۔

محصور
۔۔
اکتوبر ۲۰،۲۰۱۲


Friday 19 October 2012

چیف جسٹس سے شکوہ اور سوال۔۔



یہ کیسی تیری عدالت ہے۔؟


صدحیف تیری عدالت پر
صد حیف تیری قضاوت پر
لہو رنگ ہے اپنا وطن
تو مسندِ  عدالت  پر

تھپڑ پہ نوٹس لیتا ہے
خوں خواروں کو چھوڑتا ہے
جو سو لوگوں کا قاتل ہے
تو کیسے اس کو چھوڑتا ہے۔۔؟

کیا ایسی تیری عدالت ہے۔۔؟؟
کیا ایسی تیری قضاوت ہے۔۔؟؟

۔۔۔۔۔

عدل کے ایوانوں میں بیٹھے
بے حس ضمیرو بولو تو
جب قاتل مانے اپنا گناہ
کیا اس کو چھوڑا جاتا ہے

پھر کیسے چھوڑے قاتل تم نے۔۔؟
پھر کیوں چھوڑے قاتل تم نے۔۔؟
ایسا بھی کہیں پہ ہوتا ہے۔۔؟
جیسے چھوڑے قاتل تم نے۔۔؟

کیا یہ بھی کوئی عدالت ہے۔۔؟
کیا یہ بھی کوئی قضاوت ہے۔۔؟

۔۔۔۔

محصور


وکیلِ آلِ محمدؐ سید شاکر حسین رضوی کےنام۔۔



شہید سید شاکر حسین رضوی کو استعماری گماشتوں نے لاہور ہائی کورٹ کے باہر اپنی سفاکی اور درندگی کا نشانہ بنایا۔۔
تاریخ شہادت۔۔۱۹ اکتوبر ۲۰۱۲

مظلوموں کا حامی شاکر
محصوروں کا حامی شاکر

وکیل غلام رضا کا تھا
فرزند امام رضاؑ کا تھا

مارا تھا عدالت کی چوکھٹ پر
بے عدل عمارت کی چوکھٹ پر

جو سو موٹو کا حامی ہے
چپ کیوں اس نے سادھی ہے۔۔؟

دہشت کو للکارے کون۔۔؟
وحشت کو للکارے کون۔۔؟

شاکربولا ہے شہادت پر
شاکر ہوں اپنی شہادت پر

زہراؑ کا پسر،زہراؑ پہ قرباں
ملت کا فخر، زہراؑ پہ قرباں

منزل جو تو نے پائی ہے
زہراؑ کی دعا سے پائی ہے

شاکر تو زندہ پایندہ ہے
قتل ہوا پھر بھی زندہ ہے

روز لٹتے ہیں گھر اپنے
روز کٹتے ہیں سر اپنے

ظالم پھر بھی حیراں ہے
زکرِ حسینیؑ پھر بھی رواں ہے

ظالم انگشت بدنداں ہے
قافلہ اپنا پھر بھی رواں ہے

مبارک تجھ کو قربتِ زہراؑ
شہادت ہی ہے قربتِ زہراؑ

محصور۔۔
اکتوبر ۱۹،۲۰۱۲
۱۱:۱۸