Friday 22 November 2013

نئے انداز کے پرانے تکفیری

نئے انداز کے پرانے تکفیری

وطنِ عزیز پاکستان   شدید ترین  دہشت گردی اور تکفیریت کی لپیٹ میں ہے، جو پودا  چھاؤنیوں میں ایک فوجی آمر کے زیرِ سایہ لگایا گیا تھا اس وقت تناور درخت کی صور ت اختیار کر چکا ہے۔  ہر دور کے  صاحبِ اقتدار آمر نے اس پودے کی ایسی نشو نما کی کہ ملک کے کونے کونے میں اس بدنماو درخت نے اپنے پھل سے دہشت گردی کو مزید پروان چڑھایا۔ نہ صرف پاکستان حتٰی پڑوسی ملک بھی  آج تک اس سے متاثر  ہو رہے ہیں۔
گزشتہ تیس سالوں میں ہزاروں پاکستانی( شیعہ، سنی،احمدی،عیسائی،ہندو) سب کے سب  ایک مخصوص فکر اور ٹولے کی  دہشت گردی کا شکار ہیں۔ سپاہ صحابہ نامی ایک دہشت گرد تنظیم جو اپنا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے بتاتی ہے، تمام مکاتیبِ فکر کے خلاف روزِ او ل سے زہر اُگل رہی ہے ۔ ان کی نفرتوں کا نشانہ  مخالف گروہوں  کے مذہبی اجتماعات اور عقائد رہے ہیں، جیسے عید میلاد النبی ؐ کےجلوسوں سے لے کر  محرم کی محافل اور جلوس زیرِ عتاب رہے ہیں۔ کبھی تقریروں سے اور کبھی  تحریروں سے  تکفیریت کی فیکٹری کھولی گئی اور  بلا تخصیص کفر کے فتوے ایک مخصوص انداز میں چھپتے  رہے۔کالعدم سپاہ صحابہ جو آج کل اہلِ سنت والجماعت لکھنے اور پکارے جانے پہ مُصر ہے  ۔چہ جائیکہ اہلِ سنت کی  اہم جماعتیں  او ر طبقے اس سے لا تعلقی کا  اعلان کر چکی ہیں۔

گزشتہ جمعہ راولپنڈی راجہ بازار میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، میں اس واقعے کی گہرائی اور اس کے محرکات کی طرف نہیں جانا چاہتا ، سوشل میڈیا پہ برما، شام ،عراق، داتا دربار کی تصویریں ہر ایک نے دیکھیں اور  اس سے جتنا اشتعال پھیلایا گیا وہ کسی ذی شعور کو سمجھنے کے لیے کافی ہے،
اس واقعے کے فوراً بعد  ایک مخصوص گروہ سامنے آیا  جو خود کو پروگریسیو کہتا ہے، نیوٹرل کہتا ہے، کسی ایک مکتبہ فکر سے تعلق جوڑنے کو بھی منافقت کہتا ہے،  سادہ الفاظ میں سیکولر لبرل کہتا ہے،مگر وہی گروہ پچھلے ایک  ہفتے سےتکفیریوں  کو مسلسل اہلِ سنت کے ساتھ جوڑ کر  واقعے کو شیعہ سنی فساد کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے، تکفیریوں کی ساری قتل و غارت گری کو ایک  پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سپاہ صحابہ کی تکفیری دہشت گردوں کی کاروائیوں سے کون نا آشنا ہے؟

تکفیریوں نے کفر ساز فیکٹریاں کھولیں اور سرِ دیوار  کفر کے فتوے کندہ کیے،
تکفیریوں نے چن چن کر پاکستان کے نابغہ روزگار ہستیوں کو قتل کیا،
تکفیریوں نے مساجد، امام بارگاہوں، جلسوں ، جلوسوں میں خون بہایا ، 
تکفیریوں نے اپنی نفرت آمیز تقریروں سے اس قوم کو خود کش بمباروں کی فوج دی،
تکفیریوں نے  اپنے مدرسوں سے ملا فضل اللہ جیسے  انسان دشمن اور حیوان صفت درندے دیے،
الغرض پاکستان کے ہر سانحے کے پیچھے کہیں نہ کہیں تکفیری گروہ یا اس کے مدارس کار فرما رہے ہیں۔
ہم نے  پہلے دن سے یہ کہا اور یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ یہ تکفیری خود کو پر امن اہلِ سنت کے ساتھ جوڑ کر ان تمام گناہوں پر پردہ ڈال رہے ہیں جو انہوں نے گزشہ تیس سالوں میں اس ملک میں کیے۔  ایک منظم سازش کے تحت ٹویٹر کا پروگریسیو اور  سیکولر مافیا تکفیریوں کے مظالم پر پردہ ڈال رہا ہے، اور تکفیریوں کے مطالبات پر ہاں پر ہاں ملا رہا ہے، کہ  جیسے بھی ممکن ہو مذہبی جلوس پر پابندی لگائی جائے،  عبادتو ں کو چار دیواری میں مقید کیا  جائے، مسائل کی اصل وجہ یہ جلسے  جلوس ہی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بذدلانہ اور غیر ممکن  مطالبات کا سلسلہ  جاری و ساری ہے، اور جب جب ان آوازوں کا روکا گیا، ان کی تصحیح کی گئی تو وہی  لوگ شیعہ نسل  کشی  کو   سارکزم اور طنز  کے ایک پیرائے میں گزار تے رہے ہیں۔ جیسے شیعہ نسل کشی تو ابھی ابھی کی بات ہے۔

دنیا کی ہر مہذب قوم تمام مذاہب کے لوگوں کو  مذہبی آزادی کا حق دیتی ہے اور دنیا بھر میں  جلسے جلوس ہوتے ہیں مگر یہاں مذہبی رسومات کو قید کرنے میں با ریش اور بنا ریش کے تکفیری منظم ہیں۔ بہر حال تکفیریوں  کی شناخت بہت ضروری ہے،   کیونکہ کہ یہ جہاں بھی رہیں گے وہاں نفرت اور  خوں ریزی  کا بازار گرم رہے گا۔جیسے کلین شیو طالبان دوست موجود ہیں ویسے ہی لبرل  سیکولر تکفیری بھی موجود ہیں۔ ان  چہروں کو جاننے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے، یقیناً وہ لوگ  ماضی میں  جماعتیے یا تکفیری گروہوں کا حصہ رہ چکے ہوں گے اور آج  اپنے اندر کا  بغض اس انداز میں نکال رہے ہیں۔ ایک طرف آزادی اظہار اور مکمل مذہبی آزادی کے دعوے اور دوسری طرف عمداًتکفیریوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی لیے سر گرم، حقیقت جو بھی مگر یہ سب کے سب نئے انداز کے پرانے تکفیری ہیں!

Wednesday 26 June 2013

علی نام ہٹا لو ورنہ بیٹا مارا جائے گا

علی نام ہٹا لو ورنہ بیٹا مارا جائے گا- از سید حیدر

وطنِ عزیز پاکستان میں جب سے شیعہ مسلمانوں کو شناختی کارڈ  اور نام دیکھ دیکھ کر مارے جانے کی رسم نے زور پکڑا ہے تب سے سنی مسلمان بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔بالخصوص وہ سنی مسلمان جن کے نام شیعہ مسلمانوں کےناموں سے ملتے جلتے ہیں جیسےعلی، حسن، حسینِ، جعفر وغیرہ۔ ایک مختصر سا واقعہ ہے جو گزشتہ ہفتے میں کچھ دوستوں کے ساتھ بات چیت کے دوران بیتا ہے وہ لکھتا ہوں۔ بڑی حیرت ا نگیز بات ہے کہ ناموں میں علی آ جانے سے غیرِ شیعہ مسلمان بھی خوف میں مبتلا ہیں۔ 

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک سنی دوست نے اپنے بیٹے کا نام "احسن علی خان" رکھا تو ساتھ بیٹھے دوسرے سنی دوست نے کہا نام کے ساتھ جو علی لکھا ہے اسے ہٹا لو ورنہ بیٹا مارا جائے گا۔ اب دونوں نے میری طرف بھی دیکھا اور کہا تم بھی اس پر غور کرو اور اگر علی نام ہٹانے سے تمہاری جان بچتی ہے تو بچا لو۔۔ ہائے افسوس!! یقیناً وہ مجھے نادان سمجھتے تھے لیکن میرے نزدیک تو یہ ان کی نادانی اور سادگی تھی۔

کسی سے سنا تھا کہ تکفیری طالبانی دہشت گرد ہر مخالف سوچ رکھنے والے شخص کے دشمن ہوتے ہیں چاہے وہ مخالف فرقے سے ہو یا مخالف نظریات سے مثلاً شیعہ، سنی بریلوی، معتدل دیوبندی یاسیکولر لبرل وغیرہ مگر پاکستان کا تو کیا کہنا یہاں پرمخصوص روشن خیال سیکولر لبرلزتو تکفیریوں کو ہر دل عزیز ہیں۔ اِنھیں رومانوی ناموں اور کرداروں سے شدید الفت ہے جیسے رضا رومانوی۔اسی طرح جہادیوں کے بارے میں سنا تھا وہ بڑے درویش صفت ہوتے ہیں  اور کسی سے نذرانے اور تحفے قبول نہیں کرتے مگر اس ملک کے نگراں سیٹھوں (سیٹھیوں) نے انھیں بھی خوب نوازا ہے جیسے 112 تکفیری دہشتگردوں کو قید سے رہائی دلانا کوئی چھوٹا معرکہ تو نہیں تھا۔

ایسے بہت سے نام نہاد انسانی حقوق کےچیمپئن اورصحافی صرف پاکستان میں ہی دستیاب ہیں۔ جن کا کام صرفمظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرنا ہوتا ہے۔  بات کہاں سے کہاں نکلتی جا رہی ہےتو اصل بات یہ تھی کہ "علی نام ہٹا لو ورنہ بیٹا مارا جائے گا"  اپنے بچوں کی حفاظت کرو شیعوں نے تو نام تبدیل نہیں کرنے اور اسی طرح اپنے بچوں کو مرواتے رہیں گے ذبح کرواتے رہیں گے۔ تم اپنی فکر کرو ورنہ کوئی بھی درندہ صفت تکفیری دہشت گرد اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ یہ شیعہ ہے یا سنی، دیو بندی ہے یا بریلوی صرف نام کی وجہ سے مار دیا جائے گا اور تم کفِ افسوس ملتے رہ جاؤ گے۔

Thursday 23 May 2013

مل کے پکارو حیدرؑ حیدرؑ



تیرہ رجب ہے میرے یاور، مل کے پکارو حیدرؑحیدرؑ
آمدِ ناصرِ دینِ سرورؐ، مل کے پکارو حیدرؑحیدرؑ

دین و عقبیٰ تجھ سے پائی، اے مولاؑ اے شیرِ الٰہیؑ
نام ہے تیرا اول و آخر، مل کے پکارو حیدرؑ حیدرؑ

قرآن کا وارث آنا ہے، روح الامیں نے بتلانا ہے
بنتِ اسدؑ کعبے کے اندر، مل کے پکارو حیدرؑ حیدرؑ

محوِ دعا ہوں میرے مولاؑ، تجھ پہ قرباں ہو جاؤں
نعرہ ہو یہ آخری لب پر، مل کے پکارو حیدرؑ حیدرؑ

جتنے جہاں میں مولائی ہیں، جتنے نمازی ماتمی ہیں
سب کا آقا سب کا رہبر، مل کے پکارو حیدر ؑ حیدر ؑ

بو طالبؑ اور ان کے بیٹے، کامل انسان ہیں بے شک
ملتی وفائیں ان کے در پر، مل کے پکارو حیدر ؑ حیدر ؑ

جتنی اپنی عزت شہرت  سب ہے عطائے مولا علیؑ
شہرِ علم کا یہ ہی ہے در، مل کے پکارو حیدر ؑ حیدرؑ

علم و شعور کا جو ہے در، وہ حیدر ؑ ہے وہ حیدر ؑ
عرش و فرش کے کھلتے ہیں در، مل کے پکارو حیدر ؑ حیدر ؑ


Friday 17 May 2013

میری مختصر نظم "زندگی"

مختصر نظم "زندگی"

ہم سب مسافروں کی طرح
کچھ لمحے ساتھ بتاتے ہیں
اور ساتھ بتائے لمحوں کو
پل بھر میں بھول بھی جاتے ہیں

پھر ایسا ہوتا ہے جیسے
یہ عمر ہماری بھی جیسے
کٹتی ہےکبھی گلزاروں میں
بکتی ہے کبھی بازاروں میں
چلتی ہے کبھی شاہراہوں پر
دردوں میں خار کے دھوکے سے
کھاتی ہے یہ زخم گلابوں سے

"زندگی" ایسے ہی کٹتی ہے
اور کٹتے کٹتے مٹتی ہے

Wednesday 20 March 2013

استادِ شہید سید سبطِ جعفر زیدیؒ کے نام


استاد سید سبطِ جعفر زیدیؒ شہید کے نام نذرانہِ عقیدت

غلام شبرؑ فدائے حیدرؑ سبطِ جعفر سبطِ جعفرؒ
کہاں ہے تجھ سا غلامِ سرورؑ؟ سبطِ جعفر سبطِ جعفرؒ

شہادت کو تھی تیری آرزو، تجھ کو شہادت کی آرزو تھی
وہ خود بھی نازاں گلے لگا کر سبطِ جعفر سبطِ جعفرؒ

بہشت میں آئیں صدائیں، ترانے خوشی کے سنے ہیں سب نے
وہ آیاہے آلِ عمراںؑ کا شاعر سبطِ جعفر سبطِ جعفرؒ

تیری سادگی تیری سربلندی بہت خوشا کہ ملی شہادت
تھا ایسا تبسم تیرے لبوں پر سبطِ جعفر سبطِ جعفرؒ

تھا عاشقِ امامِ قائمؑ، ہے ایسا محکم ایقاں میرا
ایمان میرا ہے اے دلاور سبطِ جعفر سبطِ جعفرؒ

استاد تو نے یہ بتایا، "تمہاری دولت ہے علم و تقوٰی"
ہمیں ہے سب کچھ یہ آج ازبر سبطِ جعفر سبطِ جعفرؒ

میر و مختار، ریحان و تکلم یا کوئی بھی ہوں تیرے در پر
سب کو سکھائے تو نے وہ جوہر سبطِ جعفر سبطِ جعفرؒ

گدائے آلِ مصطفٰیؐ کو، خوشنودیِ بتولؑ حاصل ہے تجھ کو
تیرا نصیب ہے دامانِ حیدرؑ سبطِ جعفر سبطَ جعفرؒ

سوز خوانی کا ماہتاب، شاعروں کا شاعر بس تو ہی
ثابت کیا یوں عمل سے مکرر سبطِ جعفر سبطِ جعفرؒ


18 مارچ 2013

Thursday 21 February 2013

آخر اہلِ درد ہے کون؟


عجب ذہنی کشمکش اور تذبذب میں مبتلا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ کوئٹہ کی جلی کٹی سر بریدہ لاشوں پر نوحہ لکھوں یا صرف آنسو بہاتا رہوں؟ظلم کی اس داستان کو کیسے ضبطِ تحریر میں لاؤں۔۔۔؟ جہاں پر شیر خوار بچوں اور عورتوں سمیت سو سے زائدمحبانِ کربلاکو ایک ہی دن میں صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کہ ان کا عقیدہ وحشی درندوں کو ہضم نہیں ہوتا۔ وہ وحشی درندے جن کی مقصد اور نظریہ صرف انسانوں کا خون بہا کر جنت کا سستا حصول ہے۔



نظروں کے سامنے ہزاروں دکھی ماؤں،  تڑپتی بیٹیوں،سسکتی بہنوں، نوحہ کناں بھائیوں کے چہرے ہیں جو ٹھٹھرتی ٹھنڈی راتوں میں اپنے پیاروں کے لاشے لیے انصاف اورامن مانگ رہے ہیں۔ لب پر صرف ایک ہی سوال ہے۔۔۔انھیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟ " خدا کی زمین پر ، خدا کے نام پر، خدا کی مخلوق پر یہ ستم کیوں ڈھایا گیا ؟۔۔۔وہ کون ہے جو ان سے جینے کا حق چھیننا چاہتا ہےاور کیونکر چھیننا چاہتا ہے۔۔۔؟؟

کیا معصوم بچوں کا خون بہا کر جنت حاصل کرنا مقصود ہے؟ اگر جنت معصوموں کے خون سے مشروط ہے تو ایسی جنت سے کیا حاصل؟ جس کی قیمت ستم رسیدہ بچوں کا خون ہو۔۔۔اے درندو!! کیا تمہارے ضمیر نے کبھی نہ جھنجھوڑا تمہیں۔۔۔؟ مگر افسوس تمہارا ضمیر تو پیدا ہوتے ہی مار دیا گیا تھا۔



کس کس کا نوحہ لکھوں۔۔کس کس پر گریہ کروں۔۔۔؟

اُس معصوم شیعہ ہزارہ بچی "ثنا" کی آہوں کو کیسے قلم کی نوک سے تحریر کروں جو یہ کہتی رہی کہ میرے بابا
  بازار گئے تھے اور واپس نہیں آئے، وہ شہید ہو گئے ہیں۔۔۔ کسی نے پوچھا بیٹا: آپ کے بابا کدھر گئے ۔۔۔؟ تو کہنے لگی وہ امام حسینؑ کے پاس چلے گئے۔۔۔یہ جنت و جہنم سے ناواقف بچی اپنے بابا کی منزل کو کیسے پہچانتی ہے۔۔۔؟ صد آفریں ہے اس ماں پر جو اس بچی کو حسینیؑ رنگ میں ڈھال رہی  ہے۔




کیسے وہ دل دہلا دینے والا منظر لکھوں۔۔۔؟

جب ایک ماں گریہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میں نے اپنے یتیم بچوں کو اس لیے نہیں پالا تھا کہ کوئی درندہ آئے اور میرے جواں بیٹوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائے۔۔۔جو اپنے دو بیٹوں کو قربان کر چکی مگر آج بھی ثابت قدمی،غیرت، شجاعت اور استقامت کے ساتھ میدانِ کارزار  میں کھڑی ہے اور اپنی آیندہ نسل کو حسین ؑ کے نام پر قربان کرنے کو تیا ر ہے۔۔






ابھی ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کا گریہ آسمان سن رہا تھا کہ ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بارہ سالہ بیٹے مرتضٰی حیدر کی شہادت کی خبر نے دل کو مزید چھلنی کر دیا۔۔۔ اس انسان دوست مسیحا کے سر پر بارہ گولیاں  پیوست ہو گئیں، جس نے ساری زندگی انسانوں کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔۔ جس کا پچاسی سالہ بوڑھا باپ اپنے نا تواں کندھوں پر اپنے جواں سال بیٹے اور پوتے کے لاشے اٹھائے منوں مٹی تلے دباتے ہوئے بچشمِ تر یہ کہتا رہا۔۔۔۔۔" اے میرے مولا حسینؑ!!! میری یہ قربانی قبول کرنا۔۔۔" میرا دل و دماغ میراساتھ نہیں دے رہے اور نہ  میرے قلم میں وہ سکت کہ ایک ایک لاش کا نوحہ لکھتا رہوں۔۔۔دنیا کے ہر دردِ دل رکھنے والے انسان نے ان مظلوم لاشوں پر نوحہ پڑھا اور ماتم کیا۔۔






اب شکایت کروں تو کس سے کروں۔۔۔؟ کیسے کروں۔۔؟؟

  • ان حکمرانوں سے جن کی نا اہلی اور نالائقی نے ان سانحات کو جنم دیا۔۔۔؟
  • ان عسکری و خفیہ اداروں کے سربراہوں سے جنہوں نے لشکریوں کو اپنی نرسری میں پالا، تربیت دی اور انسانوں کو نوچنے اور کاٹنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔۔؟
  • ان سیاست دانوں سے جو اپنی سیاست اور ہوسِ حصولِ اقتدار کے لیے وحشیوں کو اپنا ہمنوا بناتے ہیں۔۔۔؟
  • ان سیاسی شعبدہ بازوں اور مسخروں سے جو ہماری لاشوں پر سیاست کرتے ہیں اور ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔۔؟
  • ان مذہبی ٹھیکیداروں سے جنہوں نے خدا کے نام کو خوف کی علامت بنا کر قتل عام کو عین عبادت قرار دیا۔۔۔؟
  • ان پیشہ ور زر خرید صحافیوں یعنی سیٹھیوں، عباسیوں،چشتیوں اور پراچوں سے جو اس خوں ریزی کو ایران اور سعودیہ کی سرد جنگ کا نتیجہ گردانتے ہیں اور ریاست کو اس سے بر ی الذمہ قرار دیتے ہیں۔۔۔؟
  • ان ا بلاغیاتی اداروں سے جنہوں نے ان سانحات سے اپنے چینلوں کی ریٹنگ بڑھانے اور پیسہ کمانے کے لیے حقائق سے چشم پوشی  اختیارکی۔۔؟
  • ان انسانی حقوق کے علمبرداروں سے جو ایک طرف ہمارے قتل پر آنسو بہاتے ہیں اور دوسری طرف قاتلوں کے ہمرائیوں سے امن کے لیے لیکچر دلواتے ہیں۔۔؟
  • ان ہمدردوں سے جو  شہیدوں کےجنازوں  کو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر مقید کرنا چاہتے ہیں اورعمداً یا سہواً  سازشوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔۔؟
  • یا اس مردہ قوم سے جسے یہ فکر ہے کہ کب دھرنے ختم ہوں اور رستے کھلیں تا کہ وہ اپنے بچوں کو مکڈونلڈ  پر برگر کھلانے لے جائیں۔۔؟

جس جس پر نظر ڈالتا ہوں ہر ایک ہمارے  قتل پر بالواسطہ یا بلا واسطہ  شریکِ جرم نظر آتا ہے۔





ہم پاکستانی مسلمان یا قوم بننا تو درکنار انسان بھی نہ بن سکے۔انسان بننے کے لیے دل سوزی چاہئے اور ہم نے تو اپنے سینے میں دل کی موجودگی کا احساس بھی کھو دیا کہ و ہ ہے بھی یا نہیں۔۔۔؟  کچھ دھڑکتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔؟ زندہ دل کہلانے والی قوم کی خاموشی اپنے ہی ہم وطنو کے خون کے جرم میں برابر کی شریک ہے۔ آج باہر کی قومیں آکر یہاں کے غم زدہ شیعوں کی دل جوئی کر رہی ہیں، اپنے وطن میں جان محفوظ نہ دیکھ کرنہ جانے کتنے اس وطن سے کُوچ کر جائیں گے۔۔؟ آخر میں اس ملک میں درندے رہ جائیں گے جو اپنی پیاس باقی بچ جانے والے انسانوں اور پاکستانیوں کے خون سےبجھائیں گے۔آج شیعہ ان درندوں کا شکار ہیں کل بریلوی،اہلِ حدیث، دیوبندی ،مالکی ، شافعی،حنبلی،حنفی وغیرہ وغیرہ تمام ان درندوں کی خوراک ہوں گے۔

پاکستان وہ ملک ہے جہاں ملک اسحاق جیسے قاتلوں پر گل پاشی کی جاتی ہے، اسکے گھر کا نان و نفقہ پنجاب میں براجمان شریف حکمران چلاتے ہیں۔ جہاں ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگوں پر لعنت بھیجی جاتی ہے اور ڈاکٹر سید علی حیدر جیسوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔
دہشت گردی ،تکفیریت، خونریزی اور نفرت کا جو بیج ملعون ضیاء الحق نے بویا تھا آج تناور درخت بن چکا ہے، اگر زندہ رہنا ہے تو اس درخت کو جڑوں سمیت کاٹ کر جلانا ہو گا ورنہ جس طرح ہم شیعہ اپنے گھروں میں لاشیں لیے بیٹھے ہیں ویسے کل ہر ایک ایسا ہی منظر دیکھے گا۔

معروف شاعر اور استاد پرویز ساحر صاحب کی ایک مختصر نظم"سوال؟" تمام  پڑھنے والوں کے لیے چھوڑتا ہوں۔۔امید ہے کہ کچھ تو انسانیت کادردجاگے گا۔۔


آپ ہی حاکم اور محکوم
آپ ہی ظالم اور مظلوم

آپ ہی قاتل اور مقتول
آپ ہی کانٹے، آپ ہی پھول

آخر اہلِ درد ہے کون؟
ہم میں دہشت گرد ہے کون؟



Tuesday 19 February 2013

رخ سے نقاب اٹھائیے، مولاؑ جلد آئیے


رخ سے نقاب اٹھائیے، مولاؑ جلد آئیے
ظلم و جبر مٹائیے، مولا جلد آئیے

سب بر سرِ پیکار ہیں
مرنے کو سب تیار ہیں
یزیدیت مٹائیے،مولاجلد آئیے

مقتل میں پڑے لاشے سارے
ٹکرے ٹکرے لاشے سارے
عرض ہے دفنائیے،مولاؑ جلد آئیے

کربل کا انتظار ہے
کربل تو اب تیار ہے
تلوار کھینچ ڈالیے،مولا جلد آئیے

ظالم کی ساری سرکشی
مظلوموں کے سر پڑی
زوالفقار لائیے،مولا جلد آئیے

تیرے انتظار میں مولا
اصغرؑ جیسوں کا خون بہا
نظرِ کرم فرمائیے،مولا جلد آئیے

بازو بھی کٹے گردن بھی کٹی
نامِ عباسؑ پہ عرفاں ؒ کی
اب پردہ اٹھائیے،مولا جلد آئیے

خوں رستا ہے لاشوں کا
دم گھٹتا ہے پیاروں کا
خوں کا بدلہ چائیے،مولا جلد آئیے

بیٹے کی لاش پہ بیٹھی ہیں
کتنی راتوں سے بیٹھی ہیں
صبحِ نور دکھائیے،مولا جلد آئیے

معصوم بچے کئی راتوں سے
بابا کی لاش پہ بیٹھے ہیں
ہمت نہ آزمائیے،مولا جلد آئیے

ماؤں کی ہے آہ و زاری
بچوں کا ہے گریہ جاری
رخِ انور دکھائیے،مولا جلد آئیے

تو اور تیرا رتبہ عالی
میں اور میرا عمل خاطی
کوئی وسیلہ ڈالیے،مولا جلد آئیے


محصور نے ہر نوحہ گریہ
شہیدوں کے ہے نام کیا
مقدر اب سنواریئے،مولا جلد آئیے

Sunday 17 February 2013

لہو شناخت کیا پھر اسے بہایا گیا


پیاسا ہمیں دشت و صحرا پھرایا گیا
لہو شناخت کیا پھر اسے بہایا گیا

علیؑ کے نام پر کٹتے رہے گلے اپنے
علیؑ کے نام پر سولی ہمیں چڑھایا گیا

وہ کتنی راتیں جو مقتل میں گزاریں ہم نے
وہ کتنے دن تھے یہاں در بدر پھرایا گیا

وہ کتنے چپ تھے میرے قتل پہ دنیا والے
ہر ایک نام کو لکھتا گیا، دھرایا گیا

میرے معصوم سے بچوں پہ  رحم کس نے کیا؟
جو لہو بہتا گیا اس کو پھر بہایا گیا

اے خدا تیری اس دنیا میں ہے ظلم رواں
اندھیری شب میں یہاں جلتا دیا بجھایا گیا

ہر ایک دل کی حسرت کہ ختم ہو ظلم وستم
کوئی تو پوچھے کبھی، کتنا ہمیں ستایا گیا؟

تھا منظر اک ایسا ظلم کی داستانوں میں
خنجر سے گلے کاٹے، دریا میں  پھر بہایا گیا

سبھی کو آس لگی ہے تیرے ولیِ آخرؑ کی
وہی لائے گا عدل ، ایسا ہمیں بتایا گیا

امام عصرؑ تیری چاہت میں ظالم دنیا میں
بہت برسوں، کئی صدیاں، بے حد ستایا گیا

Friday 25 January 2013

وہ سارے لوگ ہمارے ہیں


کس نے کہا ہم ہارے ہیں؟
شبیرؑ پہ بیٹے  وارے ہیں

تم نے جتنے مارے ہیں
وہ سارے لوگ ہمارے ہیں

کوئٹہ بھی تو کربل ہے
پامال لاشے تو سارے ہیں

بازو بھی کٹے کچھ یاروں ہے
بہتے خون کے دھارے ہیں

مسند والے مجرم سارے
سب ہی قاتل ہمارے ہیں

اک دن میں لاشے اتنے
کس کس کے سہارے ہیں

ماؤں کے دکھ کوئی کیا جانے؟
کتنوں کے راج دلارے ہیں

مائیں روتی بیٹوں پر یوں
یہ بھی تو کسی کے پیارے ہیں

اب آبھی جاؤ ،اے مولاؑ
لاشیں لے کرپکارے ہیں

بہت بہتی خوں کی ندیاں
لہو رنگ سارے کنارے ہیں

رسولِ امیں تیری امت نے
تیرے نام پر بےحد مارے ہیں

کوئی تو سنے صدا میری
کتناچیخے ہیں پکارے ہیں

خوں رنگ ہیں آنسو اپنے
نالے بھی خون کے سارے ہیں

ہر سو پھیلی لاشیں ایسی
دیکھو تو کیسے نظارے ہیں

ٹکرے ٹکرے چنتے ان کے
جتنے مقتل میں پیارے ہیں

کر قبول قربانی ان کی
شبیرؑ یہ تیرے پیارے ہیں

یہی نوحہ محصور کا لوگو
سب لاشے پامال ہمارے ہیں

Friday 18 January 2013

لاشوں کا کارواں ہے




عجب سا یہ سماں ہے
لاشوں کا کارواں ہے


لاشوں کے بیچ بیٹھے
ہر اک نوحہ کناں ہے


اک لاش کے سرہانے
اک روتی ہوئی ماں ہے


عجب ہے نوحہ گریہ
عجب شور و فغاں ہے


تو چل دیا کدھر کو؟؟
تیری ماں پریشاں ہے


اُس دن تو یہیں تھا۔
دو دن سے کہاں ہے؟؟


دیکھا تھا تجھ کو شب میں
یا یہ میرا گماں ہے۔؟؟


کچھ تو بتا دے بیٹا
یہ کیسا دھواں ہے۔؟


کتنا تھا خون نکلا؟؟
وہ زخم کدھر، کہاں ہے؟


چوموں میں تجھ کو بیٹا
پر، چہرہ نہ عیاں ہے


اک بار کہہ دو ماں مجھے
کہہ دو تو یہ احساں ہے


بتا نا مجھ کو بیٹا۔۔
کیوں خون میں غلطاں ہے؟؟


قاتل ہے کوئی ایک؟؟
یا قاتل یہ جہاں ہے؟


اک بار پکار مجھ کو
قربان تجھ پہ ماں ہے


حسینؑ یہ بیٹا میرا
تجھ پہ ہی قرباں ہے


تیرے بعد یہ گھر اپنا
بہت سونا اور ویراں ہے


کیسے میں تجھ کو چھوڑوں؟
تو اکبرؑ سا جواں ہے


بیٹا! اتنی سی ہے گزارش
تو ہے تو یہ ماں ہے


رکتا نہیں گریہ میرا
یہ اک سیلِ رواں ہے


آنسو تھے کب سے گرتے
اب ان میں خوں رواں ہے


محصور اب تو رک جا
وہ اپنی ہی تو ماں ہے




محصور 
13 جنوری 2013