عجب سا یہ سماں ہے
لاشوں کا کارواں ہے
لاشوں کے بیچ بیٹھے
ہر اک نوحہ کناں ہے
اک لاش کے سرہانے
اک روتی ہوئی ماں ہے
عجب ہے نوحہ گریہ
عجب شور و فغاں ہے
تو چل دیا کدھر کو؟؟
تیری ماں پریشاں ہے
اُس دن تو یہیں تھا۔
دو دن سے کہاں ہے؟؟
دیکھا تھا تجھ کو شب میں
یا یہ میرا گماں ہے۔؟؟
کچھ تو بتا دے بیٹا
یہ کیسا دھواں ہے۔؟
کتنا تھا خون نکلا؟؟
وہ زخم کدھر، کہاں ہے؟
چوموں میں تجھ کو بیٹا
پر، چہرہ نہ عیاں ہے
اک بار کہہ دو ماں مجھے
کہہ دو تو یہ احساں ہے
بتا نا مجھ کو بیٹا۔۔
کیوں خون میں غلطاں ہے؟؟
قاتل ہے کوئی ایک؟؟
یا قاتل یہ جہاں ہے؟
اک بار پکار مجھ کو
قربان تجھ پہ ماں ہے
حسینؑ یہ بیٹا میرا
تجھ پہ ہی قرباں ہے
تیرے بعد یہ گھر اپنا
بہت سونا اور ویراں ہے
کیسے میں تجھ کو چھوڑوں؟
تو اکبرؑ سا جواں ہے
بیٹا! اتنی سی ہے گزارش
تو ہے تو یہ ماں ہے
رکتا نہیں گریہ میرا
یہ اک سیلِ رواں ہے
آنسو تھے کب سے گرتے
اب ان میں خوں رواں ہے
محصور اب تو رک جا
وہ اپنی ہی تو ماں ہے
محصور
13
جنوری 2013
No comments:
Post a Comment