Friday 18 January 2013

لاشوں کا کارواں ہے




عجب سا یہ سماں ہے
لاشوں کا کارواں ہے


لاشوں کے بیچ بیٹھے
ہر اک نوحہ کناں ہے


اک لاش کے سرہانے
اک روتی ہوئی ماں ہے


عجب ہے نوحہ گریہ
عجب شور و فغاں ہے


تو چل دیا کدھر کو؟؟
تیری ماں پریشاں ہے


اُس دن تو یہیں تھا۔
دو دن سے کہاں ہے؟؟


دیکھا تھا تجھ کو شب میں
یا یہ میرا گماں ہے۔؟؟


کچھ تو بتا دے بیٹا
یہ کیسا دھواں ہے۔؟


کتنا تھا خون نکلا؟؟
وہ زخم کدھر، کہاں ہے؟


چوموں میں تجھ کو بیٹا
پر، چہرہ نہ عیاں ہے


اک بار کہہ دو ماں مجھے
کہہ دو تو یہ احساں ہے


بتا نا مجھ کو بیٹا۔۔
کیوں خون میں غلطاں ہے؟؟


قاتل ہے کوئی ایک؟؟
یا قاتل یہ جہاں ہے؟


اک بار پکار مجھ کو
قربان تجھ پہ ماں ہے


حسینؑ یہ بیٹا میرا
تجھ پہ ہی قرباں ہے


تیرے بعد یہ گھر اپنا
بہت سونا اور ویراں ہے


کیسے میں تجھ کو چھوڑوں؟
تو اکبرؑ سا جواں ہے


بیٹا! اتنی سی ہے گزارش
تو ہے تو یہ ماں ہے


رکتا نہیں گریہ میرا
یہ اک سیلِ رواں ہے


آنسو تھے کب سے گرتے
اب ان میں خوں رواں ہے


محصور اب تو رک جا
وہ اپنی ہی تو ماں ہے




محصور 
13 جنوری 2013

No comments:

Post a Comment