Monday 29 October 2012


بے حسی


بے حس ہونے کے لیے کسی ذات پات، رنگ و نسل، کی ضرورت نہیں  ہر کوئی بحیثیتِ انفرادی و اجتماعی بے حس ہو سکتا ہے۔ دورِ حاضر میں قومیں بھی بےحس ہو جاتی ہیں، جب قومیں بے حس ہو جائیں تو ان کے اندر قوم کہلانے کی ہمت اور روح باقی نہیں رہتی۔ہمارا وطن جسے ایک قوم کے نعرے نے ہزاروں لوگوں کی قربانیوں  دے کر حاصل کیاتھا اس وقت بے حسی کے اعلیٰ درجے پر فائز ہے۔کراچی سے خیبر اور زیارت سے گلگت تک روزانہ بیسیوں لوگ مارے جاتے ہیں اور کسی کے کانوں پر جوں تک  نہیں رینگتی۔ ریاست کے امن وا مان کی ذمہ داری پر مامور وزیرِ داخلہ نمازِ عید پر امن و امان کو یقینی بنانے پر میڈیا اور قوم سے دادِ تحسین وصول کرنا چاہتے تھے مگر عین اسی لمحے نوشہرہ سے کاکا صاحب کے مزار پہ بم دھماکے کی اطلاع ملتی ہے اور  دادِ تحسین نفرین میں بدل جاتی ہے۔عجیب سانحہ تو وہ بیانات ہیں جو دھماکوں سے بھی بڑھ کر ہیں  اور وہ یہ  پاکستان میں دھماکے سیکیورٹی ایجنسیاں کروا رہی ہیں اور طالبان کو بدنام کر رہی ہیں ۔طالبان اور ایجنسیوں کے رشتے سے نا واقفیت بھی ایک جرم سمجھا جائے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستانی قوم نے بحیثیتِ مجموعی بے حس ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اس کا اندازہ ملالہ یوسف زئی کے واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ملالہ سوات میں طالبان دہشت گردوں سے قلم اور کتاب کے ذریعےجنگ لڑ رہی تھی اور قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو گئیں۔اس واقعے پر پوری قوم سراپا احتجاج تھی مگر افسوس ملک میں پڑھے لکھے دانشوروں نے چاہے دائیں بازو سے ہوں یا بائیں بازو سے اپنے نظریے اور موقف کو منوانے کے لیے میڈیا اور با لخصوص سوشل میڈیا پر وارد  ہوئے۔اس بچی کا درد تو ایک طرف رہا ہماری بحث کا موضوع اس طرف مڑ گیا کہ ہم نے اپنے مخالف کو اس واقعےسے کیسے مات دینی ہے اور کیسے  اس کے نظریے کو پچھاڑنا ہے۔ہمارے پڑھے لکھے روشن خیال دانشوروں کو یہ احساس نہیں کہ جب کسی کا بیٹا یا بیٹی خون میں لت پت پڑی ہوتی ہے تو اس کے عزیزوں کو  درد شدت سے محسوس ہوتا ہے اور  اس کا احساس وہی کر سکتے ہیں۔حسِ درد کے لیے کسی نظریے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہمارے قومی رویے میں یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ ہمارے جاہل مزدور سے لے کر پڑھے لکھے دانشور میں بات کرنے کا سلیقہ ہے نہ ہی سننے کا ہنر، ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ کیسے اپنے مخالف کو  چِت کیا جائے؟، جو عدمِ برداشت سے زیادہ  بے حسی کی علامت ہے۔ہم آج بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ جو لوگ ہمارے بچوں پر حملہ کر رہے ہیں ،ہمارے جوانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ان سے مزاکرات کیے جائیں یا جنگ؟ ایک سادہ سی بات کچھ لوگ سمجھ نہیں پا رہے ۔اگر کوئی گھر کی چار دیواری میں اسلحے سے لیس ہو کر گھس جائے تو اس وقت اپنا اور گھر کا دفاع لازم ہو جاتا ہے۔دہشت گرد ہمارے گھروں کے اندر گھس کر ہمارے بچوں کو کاٹ رہے ہیں اور ہم مزاکرات کے راگ الاپ رہے ہیں ۔شاید جو مزاکرات کی نغمے گا رہے ہیں ان کا اپنا خون کبھی کسی بھیڑیے کے ہاتھوں ذبح نہیں ہوا یا شاید بھیڑیوں سے کوئی مشترکہ فائدہ حاصل کرنا مقصودہے۔اسے بذدلی کہیں ،بے حسی کہیں یا حکمتِ عملی یہ سوال پڑھنے والوں کے لیے چھوڑتا ہوں۔ دفاعِ وطن مقدم ہے چاہے گھر کے اندر نااتفاقی اور انتشار ہی کیوں نہ ہو، بیرونی دشمن سے نمٹ کر  ہی خلفشار کے  نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ان تربیت گاہوں کو ختم کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے جو دہشت اور خون خوار بھیڑیوں  کو انسانوں کو کاٹنے کے لیے  تربیت دیتے ہیں۔بے حسی کا خاتمہ اپنے وجود کے اظہار سے ہو سکتا ہے نہ کہ اپنے آپ کو  کسی بے رحم کے سامنے کٹنے کے لیے چھوڑ دینے سے۔


No comments:

Post a Comment