Wednesday 14 November 2012

مفادات کے غلام



سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک، یوٹیوب،ٹویٹر وغیرہ نے ابلاغ کے شعبے میں حیرت انگیز انداز میں  ترقی کی ہے۔پرنٹ اورالیکٹرونک میڈیا جو حقائق چھپا کے رکھنا چاہتا ہے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی بدولت اب وہ حقائق دنیا کے سامنے باآسانی میسر ہیں۔ اب یہ عقل رکھنے والوں پہ منحصر ہے کہ وہ حق و باطل،درست و غلط کو کن پیمانوں پر تولتے ہیں۔اس سے پہلے موجود میڈیا اپنے مفادات اور پیسوں کی ریل پیل پر خبریں بناتا اور پہنچاتا تھا۔ حقائق کو موڑنا، سچ کو جھوٹ، جھوٹ کو سچ بنانے میں نام نہاد آزاد میڈیا یکتائے ہنر رکھتا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے سوشل میڈیا پر وقت گزارنے سے پتہ چلتا ہے کہ جو میڈٰیا سب اچھے کی رپورٹس دیتا ہے وہ حقائق سے کتنا دور ہوتی ہیں۔میڈیا اس ملک کا چوتھا ستون بن کر ابھرا مگر کالی بھیڑوں کو اس ستون سے باندھ دیا گیا۔ وہ کالی بھیڑیں دن رات ستون سے بندھی اپنے آقاؤں کا کھاتی ہیں اور وہیں پر گندگی پھیلاتی ہیں۔اس گندگی کے مناظر اندرون و بیرونِ ملک تمام محبِ وطن پاکستانیوں نے عمیق نظروں سے دیکھےاور عوامی حمایت یافتہ میڈیا نے سوائے لعن طعن کے کچھ وصول نہ کیا۔ایک اہم مسئلہ جسے ایک عرصے سے میڈیا ،عدلیہ،مقننہ،بیوروکریسی فرقہ واریت کے نام سے عوام کے زہنوں میں ڈال رہی ہے۔ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے ملک میں شیعہ سنی ایک دوسرےکو گلی محلوں میں اور مکانات میں گھس کر مار رہے ہیں۔فرقہ واریت نے اس ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے،اس کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔

Shivangini Pathak ایک ہندوستانی سائکلوجسٹ ہیں ۔سیاست اور حقوقِ انسانی کے لیے سماجی ویب سائٹس پر فعال ہیں ۔پاکستان کے اندر جتنی فرقہ واریت کے نام پر شیعہ نسل کشی ہو رہی ہے اس کا گہرا مطالعہ اور ادراک رکھتی ہیں۔حتٰی گزشتہ روز گزرنے والے ہولی کے تہوار کو بھی سادگی سے منانے کا پیغام دیتی ہیں اس کی وجہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی  میں شہید ہونے والوںسے اظہارِ یک جہتی کرنا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ظلم کے خلاف آوازِ حق بلند کرنے کے لیے کسی خاص فرقہ یا مذہب سے وابستگی ضروری نہیں ۔ ایک آزاد منش انسان مظلوموں پر ہونے والے مظالم کو ایک غیر مسلم ریاست سے بھی بلند کر سکتا ہے۔Shivangini Pathak نے آزاد ہونے کا ثبوت یوں پیش کیا کہ ظلم کوظلم کہا،امن کو امن کہا،مظلوم و محکوم کی دادرسی کیحتٰی اس آواز کو پاکستان میں آکر گلیوں اور چوراہوں میں بلند کرنے کا تہیہ کیا۔ایک آزاد فکر انسان ایسا ہی ہوتا ہے۔
یہاں پر کچھ لمحہ توقف کرتے ہوئے انسانی حقوق کے علمبرداروں، میڈیاکے ٹھیکیداروں، جمہوریت کے پیروکاروں، اسلام کے نام لیواؤں سے دستِ ادب جوڑ کر ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔کیا ہمارا میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں وغیرہ وغیرہ۔ ایک ہندو ملک کی آزاد فکر Shivangini Pathak سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ کیا یہ لوگ اس بے باکی،جرات اور بہادری سے ظلم کو ظلم، حق کو حق کہنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں؟وہی جملہ پھر دہرا رہا ہوں آزاد فکر ہونے کے لیے کسی خاص مذہب کی ضرورت نہیں ہوتی، قدرت نے انسان کو آزاد ہی پیدا کیا یہ اس کی نالائقی تھی جو اس نے خود کو خواہشات،پیسے،اقتدار،لالچ اور مفادات کا غلام بنا لیا۔ مہران اور بولان سے لے کر خیبر تک روزانہ بیسیوں شیعہ مسلمان دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہِ اجل بنتے ہیں مگر مفادات کا غلام آزاد میڈیا انھیں فرقہ واریت کا نام دے کر آگ کو بھڑکاتا جا رہا ہے۔ ایک قوم کی نسل کشی کو مصنوعی نام دے کر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ مفادات کے غلام حق بات کہنے سے گریزاں ہیں کیونکہ مفادات کے نام پر ملنے والی روٹی اور پانی بند ہو جائے گا۔مگر وہ اتنا نہیں جانتے کہ جس مفاداتی روٹی کے سہارے وہ جی رہے ہیں وہ ہمیشہ قائم نہیں رہے گی۔

No comments:

Post a Comment