Saturday, 5 September 2015

کیپٹن آکاش ربانی شہید چوک



ایس ایس جی کمانڈو کیپٹن آکاش ربانی میرے شہر کا باسی تھا اور طالبان سے جنگ کے دوران جامِ شہادت نوش کر گیا۔ کنٹونمنٹ بورڈ نے شہر کے مشہور غوری میزائل چوک کا نام بدل کر آکاش ربانی چوک رکھ دیا۔۔۔جہاں پر یہ چوک بنایا گیا وہاں ساتھ ہی ایک مسجد ہے جہاں طالبان مجاہدین کی کامیابی کی دعا کی جاتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ چوک آکاش ربانی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا یا اس کی قربانی کا مزاق اڑانے کے لیے۔

یعنی ہم قاتلوں کے مداح بھی ہیں اور شہیدوں کے غم گسار بھی!

Friday, 4 September 2015

' تِیلی لا کے'


ہمارے بچپن میں پی ٹی وی پر ایک ہندکو ڈرامہ چلتاتھا، نام تو اس کا یاد نہیں مگر ایک گاؤں کی کہانی ہوتی ہے جہاں لوگ روزمرہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہوتا ہے، محنت مزدوری، چھوٹا سا اسکول، بھیڑ بکریاں، کھیت کھلیاں غرض سب کچھ دکھایا جاتاہے۔  اس ڈرامے میں ایک نائی کا کردار تھا جس کا تکیہ کلام تھا 'تیلی لا کے' (تیلی لگا کے)۔ گاؤں والے جب بھی بال کٹوانے یا داڑھی منڈوانے اس کے پاس جاتے وہ ایک دوسرے کے خلاف ایسا زہر اگلتا کہ انسان کے دل میں کدورتوں کا بیج بو دیتا۔ اصل میں 'تیلی لا کے' سے مراد وہ پہلی تیلی ہے جس سے آگ کو لگایا جاتا ہے۔۔۔ یہ کردار ایسا تھا جو اس اسکرپٹ کے مطابق واقعات اور بیانات کو گاؤں والوں کے سامنے گھما پھرا کر پیش کرتا تھا تا کہ علاقے کا ماحول خراب ہو اور گاؤں میں ہمیشہ نا امنی اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا رہے۔   یعنی گامے کو کہتا کہ پھجے نے اپنی گائے تیری فصلوں میں جان بوجھ کر بھجوائی تاکہ تیری فصل تباہ ہو۔۔۔ یا منّے کو کہتا ٹیوب ویل والا جان بوجھ کر تمہیں  پانی کم دیتا ہے تاکہ تجھے نقصان ہو اور کاکے کو فائدہ ہو ۔۔۔جب کبھی وہ تیلی لگاتا ہے تو ساتھ میں یہ وضاحت ضرور کرتا ہے کہ میں تو  صرف تمہارے بھلے کے لیے یہ کر رہا ہوں ورنہ میرا کاروبار تو بہت اچھا ہے۔۔۔وہ کردار جب بھی اپنی چالاکی اور سفاکی سے کسی کو ایک دوسرے کے خلاف لڑتا دیکھتا تو اسے یہ دیکھ کر سکون ملتا تھا۔ میں جب کبھی بھی مولانا طاہر اشرفی کو یا اس کے سرگرمیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ کردار یاد آ جاتا ہے۔۔۔ یہاں پر مولاناکی دوکان تو نہیں لیکن "ٹویٹر" ضرور موجود ہے جس پر وہ معاشرے میں فتنہ برپا کرتے رہتے ہیں اور ساتھ میں یہ کہہ بھی دیتا ہے میں تو ملک اور امت کی بھلائی کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہوں۔۔۔۔ اشرفی صاحب بھی یوں ہی کہتے ہیں میں تو عدم برداشت کے رویوں کے خلاف ہوں مگر " مرزا قادیان پر۔۔۔۔" میں امت کے اتحاد پر یقین رکھتا ہوں مگر "ابن سبا" والوں پر بھی لعنت۔۔ دراصل یہ "کردار" ہمارے معاشرے میں سرایت کر گیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے مگر وہ "کردار" اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے یہ سب  کچھ کرتا ہے۔



Friday, 22 November 2013

نئے انداز کے پرانے تکفیری

نئے انداز کے پرانے تکفیری

وطنِ عزیز پاکستان   شدید ترین  دہشت گردی اور تکفیریت کی لپیٹ میں ہے، جو پودا  چھاؤنیوں میں ایک فوجی آمر کے زیرِ سایہ لگایا گیا تھا اس وقت تناور درخت کی صور ت اختیار کر چکا ہے۔  ہر دور کے  صاحبِ اقتدار آمر نے اس پودے کی ایسی نشو نما کی کہ ملک کے کونے کونے میں اس بدنماو درخت نے اپنے پھل سے دہشت گردی کو مزید پروان چڑھایا۔ نہ صرف پاکستان حتٰی پڑوسی ملک بھی  آج تک اس سے متاثر  ہو رہے ہیں۔
گزشتہ تیس سالوں میں ہزاروں پاکستانی( شیعہ، سنی،احمدی،عیسائی،ہندو) سب کے سب  ایک مخصوص فکر اور ٹولے کی  دہشت گردی کا شکار ہیں۔ سپاہ صحابہ نامی ایک دہشت گرد تنظیم جو اپنا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے بتاتی ہے، تمام مکاتیبِ فکر کے خلاف روزِ او ل سے زہر اُگل رہی ہے ۔ ان کی نفرتوں کا نشانہ  مخالف گروہوں  کے مذہبی اجتماعات اور عقائد رہے ہیں، جیسے عید میلاد النبی ؐ کےجلوسوں سے لے کر  محرم کی محافل اور جلوس زیرِ عتاب رہے ہیں۔ کبھی تقریروں سے اور کبھی  تحریروں سے  تکفیریت کی فیکٹری کھولی گئی اور  بلا تخصیص کفر کے فتوے ایک مخصوص انداز میں چھپتے  رہے۔کالعدم سپاہ صحابہ جو آج کل اہلِ سنت والجماعت لکھنے اور پکارے جانے پہ مُصر ہے  ۔چہ جائیکہ اہلِ سنت کی  اہم جماعتیں  او ر طبقے اس سے لا تعلقی کا  اعلان کر چکی ہیں۔

گزشتہ جمعہ راولپنڈی راجہ بازار میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، میں اس واقعے کی گہرائی اور اس کے محرکات کی طرف نہیں جانا چاہتا ، سوشل میڈیا پہ برما، شام ،عراق، داتا دربار کی تصویریں ہر ایک نے دیکھیں اور  اس سے جتنا اشتعال پھیلایا گیا وہ کسی ذی شعور کو سمجھنے کے لیے کافی ہے،
اس واقعے کے فوراً بعد  ایک مخصوص گروہ سامنے آیا  جو خود کو پروگریسیو کہتا ہے، نیوٹرل کہتا ہے، کسی ایک مکتبہ فکر سے تعلق جوڑنے کو بھی منافقت کہتا ہے،  سادہ الفاظ میں سیکولر لبرل کہتا ہے،مگر وہی گروہ پچھلے ایک  ہفتے سےتکفیریوں  کو مسلسل اہلِ سنت کے ساتھ جوڑ کر  واقعے کو شیعہ سنی فساد کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے، تکفیریوں کی ساری قتل و غارت گری کو ایک  پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سپاہ صحابہ کی تکفیری دہشت گردوں کی کاروائیوں سے کون نا آشنا ہے؟

تکفیریوں نے کفر ساز فیکٹریاں کھولیں اور سرِ دیوار  کفر کے فتوے کندہ کیے،
تکفیریوں نے چن چن کر پاکستان کے نابغہ روزگار ہستیوں کو قتل کیا،
تکفیریوں نے مساجد، امام بارگاہوں، جلسوں ، جلوسوں میں خون بہایا ، 
تکفیریوں نے اپنی نفرت آمیز تقریروں سے اس قوم کو خود کش بمباروں کی فوج دی،
تکفیریوں نے  اپنے مدرسوں سے ملا فضل اللہ جیسے  انسان دشمن اور حیوان صفت درندے دیے،
الغرض پاکستان کے ہر سانحے کے پیچھے کہیں نہ کہیں تکفیری گروہ یا اس کے مدارس کار فرما رہے ہیں۔
ہم نے  پہلے دن سے یہ کہا اور یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ یہ تکفیری خود کو پر امن اہلِ سنت کے ساتھ جوڑ کر ان تمام گناہوں پر پردہ ڈال رہے ہیں جو انہوں نے گزشہ تیس سالوں میں اس ملک میں کیے۔  ایک منظم سازش کے تحت ٹویٹر کا پروگریسیو اور  سیکولر مافیا تکفیریوں کے مظالم پر پردہ ڈال رہا ہے، اور تکفیریوں کے مطالبات پر ہاں پر ہاں ملا رہا ہے، کہ  جیسے بھی ممکن ہو مذہبی جلوس پر پابندی لگائی جائے،  عبادتو ں کو چار دیواری میں مقید کیا  جائے، مسائل کی اصل وجہ یہ جلسے  جلوس ہی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بذدلانہ اور غیر ممکن  مطالبات کا سلسلہ  جاری و ساری ہے، اور جب جب ان آوازوں کا روکا گیا، ان کی تصحیح کی گئی تو وہی  لوگ شیعہ نسل  کشی  کو   سارکزم اور طنز  کے ایک پیرائے میں گزار تے رہے ہیں۔ جیسے شیعہ نسل کشی تو ابھی ابھی کی بات ہے۔

دنیا کی ہر مہذب قوم تمام مذاہب کے لوگوں کو  مذہبی آزادی کا حق دیتی ہے اور دنیا بھر میں  جلسے جلوس ہوتے ہیں مگر یہاں مذہبی رسومات کو قید کرنے میں با ریش اور بنا ریش کے تکفیری منظم ہیں۔ بہر حال تکفیریوں  کی شناخت بہت ضروری ہے،   کیونکہ کہ یہ جہاں بھی رہیں گے وہاں نفرت اور  خوں ریزی  کا بازار گرم رہے گا۔جیسے کلین شیو طالبان دوست موجود ہیں ویسے ہی لبرل  سیکولر تکفیری بھی موجود ہیں۔ ان  چہروں کو جاننے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے، یقیناً وہ لوگ  ماضی میں  جماعتیے یا تکفیری گروہوں کا حصہ رہ چکے ہوں گے اور آج  اپنے اندر کا  بغض اس انداز میں نکال رہے ہیں۔ ایک طرف آزادی اظہار اور مکمل مذہبی آزادی کے دعوے اور دوسری طرف عمداًتکفیریوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی لیے سر گرم، حقیقت جو بھی مگر یہ سب کے سب نئے انداز کے پرانے تکفیری ہیں!

Wednesday, 26 June 2013

علی نام ہٹا لو ورنہ بیٹا مارا جائے گا

علی نام ہٹا لو ورنہ بیٹا مارا جائے گا- از سید حیدر

وطنِ عزیز پاکستان میں جب سے شیعہ مسلمانوں کو شناختی کارڈ  اور نام دیکھ دیکھ کر مارے جانے کی رسم نے زور پکڑا ہے تب سے سنی مسلمان بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔بالخصوص وہ سنی مسلمان جن کے نام شیعہ مسلمانوں کےناموں سے ملتے جلتے ہیں جیسےعلی، حسن، حسینِ، جعفر وغیرہ۔ ایک مختصر سا واقعہ ہے جو گزشتہ ہفتے میں کچھ دوستوں کے ساتھ بات چیت کے دوران بیتا ہے وہ لکھتا ہوں۔ بڑی حیرت ا نگیز بات ہے کہ ناموں میں علی آ جانے سے غیرِ شیعہ مسلمان بھی خوف میں مبتلا ہیں۔ 

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک سنی دوست نے اپنے بیٹے کا نام "احسن علی خان" رکھا تو ساتھ بیٹھے دوسرے سنی دوست نے کہا نام کے ساتھ جو علی لکھا ہے اسے ہٹا لو ورنہ بیٹا مارا جائے گا۔ اب دونوں نے میری طرف بھی دیکھا اور کہا تم بھی اس پر غور کرو اور اگر علی نام ہٹانے سے تمہاری جان بچتی ہے تو بچا لو۔۔ ہائے افسوس!! یقیناً وہ مجھے نادان سمجھتے تھے لیکن میرے نزدیک تو یہ ان کی نادانی اور سادگی تھی۔

کسی سے سنا تھا کہ تکفیری طالبانی دہشت گرد ہر مخالف سوچ رکھنے والے شخص کے دشمن ہوتے ہیں چاہے وہ مخالف فرقے سے ہو یا مخالف نظریات سے مثلاً شیعہ، سنی بریلوی، معتدل دیوبندی یاسیکولر لبرل وغیرہ مگر پاکستان کا تو کیا کہنا یہاں پرمخصوص روشن خیال سیکولر لبرلزتو تکفیریوں کو ہر دل عزیز ہیں۔ اِنھیں رومانوی ناموں اور کرداروں سے شدید الفت ہے جیسے رضا رومانوی۔اسی طرح جہادیوں کے بارے میں سنا تھا وہ بڑے درویش صفت ہوتے ہیں  اور کسی سے نذرانے اور تحفے قبول نہیں کرتے مگر اس ملک کے نگراں سیٹھوں (سیٹھیوں) نے انھیں بھی خوب نوازا ہے جیسے 112 تکفیری دہشتگردوں کو قید سے رہائی دلانا کوئی چھوٹا معرکہ تو نہیں تھا۔

ایسے بہت سے نام نہاد انسانی حقوق کےچیمپئن اورصحافی صرف پاکستان میں ہی دستیاب ہیں۔ جن کا کام صرفمظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرنا ہوتا ہے۔  بات کہاں سے کہاں نکلتی جا رہی ہےتو اصل بات یہ تھی کہ "علی نام ہٹا لو ورنہ بیٹا مارا جائے گا"  اپنے بچوں کی حفاظت کرو شیعوں نے تو نام تبدیل نہیں کرنے اور اسی طرح اپنے بچوں کو مرواتے رہیں گے ذبح کرواتے رہیں گے۔ تم اپنی فکر کرو ورنہ کوئی بھی درندہ صفت تکفیری دہشت گرد اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ یہ شیعہ ہے یا سنی، دیو بندی ہے یا بریلوی صرف نام کی وجہ سے مار دیا جائے گا اور تم کفِ افسوس ملتے رہ جاؤ گے۔